آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
واقعہ میں سب صورتوں کی تحقیق کرلینا ضروری ہے اور اشتراط قضاء قاضی کی بحث اس پر علاوہ ہے ۔ کتبہ‘ اشرف علی ۲۵؍ ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ سوال: زید عرصہ دس سال سے مفقودالخبر ہے اس کی موت وحیات کی کچھ خبر نہیں ملتی ہے حتی الوسع تلاش کی گئی کچھ پتہ نہیں ملتا ، اس کی زوجہ ہندہ نوجوان ہے ،زمانہ کی حالت نازک دیکھ کر اس کے والد صاحب اور برادرصاحب کا ارادہ ہے کہ اس کا عقدثانی کسی دوسرے شخص نیک بخت کے ساتھ کردیاجائے اور فتاویٰ رشیدیہ میں شاید یہ لکھا ہے کہ امام مالک صاحب ؒ یاامام شافعی صاحبؒ کے یہاں یہ درست ہے کہ اس قدر مدت کے بعد اس کا عقدکردیا جائے اور ضروتاً حنفی المذہب بھی اس مسئلہ پر عمل کرسکتے ہیں ، حضور والا کا اس مسئلہ میں کیا ارشاد ہے تاکہ اس کے موافق اس کا عمل درآمد کیا جائے ؟ الجواب: فی شرح الزرقانی المالکی علیٰ موطا الامام مالک فی عدۃ التی فقد زوجہامانصہ‘ وضعف الاول (ای الوجہ الاول للتحدید باربع سنین) بقول مالک لواقامت عشرین سنۃ ثم رفعت یستانف لہا الاجل ثم قال والثانی(ای الوجہ الثانی) لقول مالک ؓ تستانف الاربع من بعد الیأس وانہا من یوم الرفع ثم قال فلا سبیل لزوجہا الاول الیہا اذاجاء اوثبت انہ حی لان الحاکم اباح للمرأۃ الزواج الی قولہٖ ثم رجع مالک عن ہٰذاقبل موتہٖ بعام وقال لایفتیہا علی الاول الا دخول الثانی غیر عالم بحیاتہٖ ثم قال وفرق بینہا(ای المرأۃ یطلقہا زوجہا وہوغائب عنہا الخ) وبین امرأۃ المفقود بانہ لم یکن فی ہٰذہٖ امر ولا قضیۃ من حاکم بخلاف امرأۃ المفقود (کان فیہا قضاء من الحاکم) اس عبارت میں چارجگہ تصریح ہے کہ مفقود کی بی بی امام مالک ؒ کے مذہب میں بدون قضاء قاضی یعنی بدون حکم حاکم اسلام کے نکاح ثانی نہیں کرسکتی پس امام مالک ؒ کے قول پر عمل کرنا یہ ہے کہ اس قید پر بھی عمل ہو اور جب ایسا نہ کیا جائے تو نکاح ثانی ناجائز ہے اور ظاہر ہے کہ اب کوئی اس کاا ہتمام نہیں پس ایسے نکاح ان کے مذہب پر بھی جائز نہیں ہیں ۔۲۶؍رمضان ۱۳۳۲ھ ۱؎ (بوادرالنوادر ص۲۲۲)