آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
سوال:ج۳ص۹۷حَنِیْفَا کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ جواب:تفسیر میں یہ غلطی ہوئی کہ اس کے ترجمہ کو بین القوسین کردیا،ناقل نے بین القوسین دیکھ کرترجمہ سے خارج کردیا،اس کی یہ عبارت ہے ’’میں سب طریقوں سے یکسوہوکر اپنا رخ‘‘یہ حَنِیْفًا کا ترجمہ ہے، دونوں طرف کے قوسین کاٹ دینا چاہئے بس ترجمہ متن میں رہ جائے گا ۔ سوال:ج۳ص۸۰بَلْ بَدَالَہُمْ مَّاکَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ، اس پر آپ ہی کے قلم کا عربی حاشیہ ہے عبربالاخفاء اشـارۃ الیٰ أن قلوبہم کانت تصدقالخ میرے دل کو تو یہی مضمون بہت لگا، لیکن ترجمہ اور تقریرِ ترجمہ کوپڑھ کر کسی کا ذہن اس طرف نہ جائے گا ،میری فہم ناقص میں یہ حاشیہ والا مضمون متن میں آنا چاہئے تھا۔ جواب:اس کا طریقہ ذہن میں نہیں آیا ،آپ پوری عبارت بناکر بتلادیجئے تاکہ غور کرسکوں ۔(ص۴۳۷) سوال:ص۹۹س۱حَکِیْمٌ عَلِیْم کا ترجمہ ’’بڑاعلم والا بڑا حکمت والا‘‘ درج ہے ،یہ قلبِ ترتیب قصداً فرمایا گیا ہے یامحض سہوکتابت ہے؟ جواب: سہوہے ،اور سہوبھی میرا۔(ص۴۶۸) ایک سوال کے جواب تحریر فرماتے ہیں : جواب: یہ دوسوال تاریخ سے متعلق ہیں ،اگر فتحِ مصر مقدم ہے تو تفسیر موجودہ صحیح ہے اور اگر موخر ہے توآپ کی تفسیر صحیح ہے میں نے قرائن سے تقدم فتح مصر کو راحج سمجھا ،باقی احتیاطاً میں نے آپ کی تحقیق کو شائع کرنے کے لئے دے دیا ،جو اس کو راحج سمجھے گا اختیار کرلے گا ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت نقوش وتأثرات ص۴۹۸،۵۸۶