آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کا مفہوم بھی اس میں آجاتا ہے ،اب اس کلمہ پرایمان لانے اور اس کے اقرار کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ایک طرف توتمام دنیا بھر کے خداوندوں کے احکام کھڑے ہیں ، جو رسم ورواج، خیالات، اخلاق، طرز رہائش اور معاشرت وغیرہ پر مشتمل ہیں اور دوسری طرف حکم خدااور سنتِ رسول یعنی شریعت ہے ،دونوں میں سے جس کودل چاہے انسان قبول کرلے اس کا انکار کرنے والا کا فر اور اقرار کرنے والا مسلمان ہوتا ہے ،اس اقرار کے بعد انسان کو خدا کابندہ بن کر رہنا پڑے گا ،یہ نہیں ہوسکتا کہ شریعت کا ایک حکم توقانون بن جائے اور دوسرے میں کاہلی اور سستی دکھلائی جائے یارسم ورواج یا حب جاہ ومال وقوم وخاندان یااولاد میں اسے ردکردیاجائے ،یہ تمام احکام جن کی اطاعت محض خداکے لئے کی جائے مسلمان کے لئے عبادت ہیں ،کافرو مومن کا اصلی فرق بھی صاف ہے مسلمان صرف احکام خداوندی کو مشعل راہ بنائے گا ،لیکن کافر خود مختار بنارہے گا ،پرفعل مسلمان جو تعمیل حکم ایزدی میں کیاجائے عبادت خدا ہے چاہے بازار سے سودا خریدنا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب ہیں ان کو اس مفہوم پر بڑا اعتراض ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’الٰہ‘‘ کو اس مفہوم میں نہیں لے سکتے ، بلکہ صرف’’مسجود‘‘ کے معنی میں ہی لے سکتے ہیں ،دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ہر فعل جو نماز ،روزہ کے علاوہ ہوچاہے محض خدا کے لئے کیا جائے عبادت نہیں ہے بلکہ اطاعت ہے ، عبادت صرف نماز روزہ اور ذکر وتسبیح کو ہی کہا جاسکتا ہے ، عبادت کے پہلے مفہوم سے یہ اطاعت ہم معنی ہوجاتی ہے اور عبادت اور اطاعت میں کوئی فرق نہیں رہتا ،اگر عبادت اور اطاعت کا ایک ہی مطلب ہوتا توقرآن میں عبادت اور اطاعت کے الفاظ جداجدا کیوں آتے؟’’اطاعت‘‘ لفظ