آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دل سے اور خوشی سے بدون اس کے استحقاق ومطالبہ کے اتنے حساب سے تبرعاً زیادہ دے دوں گا ،بس اتنا کہہ کر پھر وہ حساب سکھلادیں ،تعلیم کا گناہ تو اسی وقت جاتارہا ،اب اس سے اگر ناجائز طورپر کوئی کام لے گا تواس پر وبال ہوگا۔ ایضاً: چونکہ حربی سے سود لینے میں کوئی خطاب شرعی نہیں ہے ،اس لئے اس کوحرام نہ کہاجاوے گا پس سود کی ایک صور ت ایسی نکلی جوحرام نہیں ،اور یہ مسئلہ ہے کہ جس امر میں ایک صورت بھی حلال ہو اس کی تعلیم اعانت علی الحرام نہیں ،پس آپ اس نیت سے سکھلاتے رہئے ۔۱؎ سوال(۲۲۲)شکل مندرجہ نمبر ایک کے ڈگری کو مدعی بقدر اصل ڈگری یعنی اسی روپئے کو ایک دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کرتا ہے، خود توسود نہیں لیتا ہے ،لیکن اس کے علم میں یہ بات ہے کہ وہ سود لے گا یااس سے نفع لیوے کسی سبب سے ،اس کے ہاتھ یہ ڈگری فروخت کرتا ہے آیا اس بیع پر کوئی مؤاخذہ ہے یانہیں ؟ الجواب: اگر یہ بائع مشتری سے حکم شرعی سے اطلاع کرکے خیر خواہانہ منع کردے پھر بائع سبکدوش ہوجاوے گا ،مگر خود ڈگری کا فروخت کرنا ہی محل کلام ہے ، کیونکہ روپیہ روپیہ کا مبادلہ وبیع مشروط ہے دست بدست ہونے کے ساتھ اور یہ یہاں مفقود ہے ۔ اس کی تدبیر یہ ہے کہ یہ بائع اس مشتری سے اتنے روپئے قرض لے اور مشتری سے کہے کہ ہمارا اتنا قرض فلاں فلاں مدعیٰ علیہ کے ذمہ آتا ہے ہم توتم کو اس پر حوالہ کرتے ہیں تم اس سے وصول کرلو،اس طرح درست ہے ، مگر اس میں ایک مشکل شرط یہ ہے کہ وہ مدعیٰ علیہ بھی بخوشی اس معاملہ سے رضامند ہو ۔ اوراگر وہ رضا مندنہ ہو توایک اور تدبیر یہ ہے کہ یہ بائع اس مشتری سے قرض ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ج۳ص۱۶۷