ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
مبارک سے - اور دوسرے وہ جہان علم ہو اور قصد نہ ہو جیسے حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے فصل میوؤن کا آجانا - تیسرے قسم وہ جہاں نہ علم ہو نہ قصد - جسیے حضرت وبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانا اور کھانے کا دو چند سہ چند ہوجانا - چنانچہ خود حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا جس سے ان کے علم و قصد کا پہلے سے متعلق نہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور ایک احتمال حصر عقلی میں سے خلاف واقع ہے کہ قصد ہو اور علم نہ ہو کیونکہ بدون علم قصد ممکن نہیں اورلفظ تصرف وہمت کا صرف قسم اول پر اطلاق کیا جاتا ہے قسم ثانی و ثالث کو تصرف نہیں کہتے - البتہ برکت کرامت کہتے ہیں - مسئلہ سوم : اور جاننا چاہئے کہ ایک اور اوعتبار سے کرامت کی دوقسمیں ہیں ایک حسی ایک معنوی - عوام لوگ اکثر حسی کوجانتے ہیں اور اسی کو کمال شمار کرتے ہیں جیسے مافی الضمیر پر مطلع ہوجانا - پانی پر چلنا - ہوا پر اڑنا و غیرہا اور خواص کے نزدیک بڑا کما کرامت معنوی ہے - یعنی شریعت پر مستقیم رہنا - مکارم اخلاق کا خود گر ہوجانا - نیک کاموں کی پابندی اور بے تکلفی سے صادر ہونا - حسد و کینہ و دیگر مذمومہ سے قلب کا طاہر ہوجانا - کوئی سانس غفلت میں نہ گزرنا - یہ کرامت ہے جس میں استدراج کا احمتال نہیں بخلاف قسم اول کے کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے اسی واسطے کاملین صدرو کرامت کے وقت بہت ڈرتے ہیں کہ یہ استدارج نہ ہو یا خدانخواستہ اس سے نفس میں عجب نہ پیدا ہوجاوے - یا اس کی وجہ سے عوام میں شہرت وامتیاز پیدا ہو کر موجب ہلاکت ہو - بلکہ بعض نے فرمایا ہے کہ بعض اولیاے نے مرتے وقت تمنا کی ہے کہ کاش دنیا میں ہماری کوئی کرامت صادر نہ ہوتی تاکہ اس کاعوض و اجر بھی آخرت میں ملتا کیونکہ یہ امر مقرر ہے کہ جس قدر دنیا میں کسی نعمت میں کسی کو کمی رہے گی اس کا بدلہ آخرت میں عنایت ہوگا - مسئلہ چہارم : اور جانا چاہئے کہ بعض علمائے کرامت کی قوت ایک حد تک معین کی ہے اور جو امور نہایت عظیم ہیں جیسے بدون والد کے اولاد پیدا ہونا یا کسی جماد کا حیوان بن جانا یا ملائکہ کا باتیں کرنا اس کا صدور کرامت سے ممتنع قراردیا ہے - مگر محقیقین کے نزدیک کوئی حد نہیں کیونکہ وہ فعل پیدا کیا ہوا اللہ تعالیٰ کا ہے - صرف ولی کے ہاتھ پر اس کا ظہور ہوگیا ہے