ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
فوائد و نتائج ( 1 ) اگر موقعہ ہو تو امر بالمعروف سے چوکنا نہ چاہئے جیسے حضرت والا نے اپنے ملنے والے کو فہمائش کی - اپنے برابر کے سامنے فروتنی : جب کوئی ذی علم اپنی برابر ی اپنے سے زیادہ مخالفت کرے تو شان علم یہ ہے کہ اہنی بات کی پچ نہ کرے اپنا کام یعنی نصیحت کردی اب اس فعل کے کرنے والے کے ذمہ ہے کہ تحقیق کرے - پرائے واسطے جنگ و جدل میں پڑنا تضیع وقت ہے - قطع نظر تضیع وقت سے خشیت الٰہی کا مقتضا یہی ہے کہ باوجود پوری یا دواشت اور تحقیق کے دوسرے کی تحقیق کے مقابل یکلخت اپنی تحقیق کو ترجیح نہ دے بلکہ نظر ثانی کرے اور پھر تحقیق کرے اس کی مثال یہ ہے کہ کسی کو ایسا مقدمہ پیش آوے کہ ذرا سی بیان پر بھانسی ہوتی ہو اور ذرا بدلنے سے چھوٹتا ہوتو وہ ایسا گڑ بڑا جاتا ہے کہ باوجود قانون دان ہونے کے بار بار دوسروں سے پوچھتا ہے اور اطمینان نہیں ہوتا - اس سے بھی زیادہ کثیر الوقوع مثال یہ ہے جب کوئی اسٹیشن پر ریل کے سفر کے ارادہ سے جاتا ہے اور اسباب اس کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے تو باجود یہ کہ وقت ٹھیک کتاب میں دیکھا ہوا ہو اور گھڑی بھی پاس ہو لیکن اسٹیشن کے قلیوں سے پوچھتا ہے کیوں جی ابھی تو ریل میں دیر ہے - اسباب کی بلٹی کرنے کا وقت تو ہے - ریل میں جگہ اچھی مل سکتی ہے اور اگر کوئی کہدے کہ ریل آگئی تو ایک دفعہ کو تو سناٹا سا ہو ہی جاتا ہے - اس وقت یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ غلط کہتا ہے - باوجود میں دیر نکلی اور پریشانی کے بعد اطمینان سے ریل مل گئی تو کہتا ہے خدا کا شکر ہے ریل مل گئی گو ایک نے تو ڈرا ہی دیا تھا - اب اگر کوئی یہ بھی کہے کہ ابھی ریل میں دیر ہے - اسٹیشن ماسٹر سے اس کی اطلاع کرو کہ ایک شخص یہاں مسافروں کو دھوکا دیتا ہے تو کہتا ہے میاں میرا کام ہوگیا اس نے جھوٹ بولا اپنا منہ خراب کیا - اسی طرح عالم کو خوف خدا چاہئے - مسئلہ بتابا خدا تعالیٰ کی طرف ایک بات منسوب کرنا ہے اگر ذرا بھی احتمال پیدا ہو