ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
تعالیٰ ہی سے ہے تو حق تعالیٰ ہی سے معاملہ کو صاف رکھو اور یہی حضرت والا کے جواب کا ما حصل ہے جو خوبیاں اس جواب میں ہیں دوسرے کسی جواب میں نہیں ہوسکتین - نہ غصہ میں حد سے خروج ہے نہ نفسانیت سے کچھ علاقہ اور ذرا ساجواب الزامی بھی ہے اور تحقیقی بھی - اور مختصر و جامع اتنا کہ کوزہ میں دریا ہے - تعلیمات اور حکمتوں کا عطر ہے - مناقشات خانگی کی اصلاح کا مختصر طریق : اگر لوگ مناقشات خانگی کے وقت اسکی تقلید کریں یعنی ہر شخص معاملہ فیما بینہ و بین اللہ کی صفائی پر نظر رکھے تو مناقشات کی جڑ ہی کٹ جاوے اور عیشہ نقیۃ اور حیٰوۃ طیبہ نصیب ہو اور اسکی عمدہ تدبیر یہ ہے کہ جیسے نماز روزہ کے مسائل علماۓ پوچھتے ہیں ایسے ہی جب کوئی خانگی جھگڑا ہو علماء حقانی سے بصورت استفتار اس کو دریافت کرلیں جو امر اللہ وامر الرسول ہو اسکو تسلیم کر لیں - راقم کا یہ دعویٰ ہے کہ ان شاء اللہ ایسا سیدھا راستہ نکلے گا کہ متناقشین خوش رہیں گے اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہوگی اور اس وقت قدر آویگی کہ شرعی قانون میں کیا کیا خوبیاں ہیں بطور نمونہ ایک واقعہ لکھتے ہیں - ایک دیندار معزز عہدہ دار حضرت والا کے خادم دو سورپیہ تنخواپ پاتے تھے اور بوجہ غایت اتقا پوری تنخواہ اپنی والدہ کے ہاتھ میں لا کردیتے تھے جب یہ خود والدہ سے اتنے مطیع تھے تو گھر میں کسی کی کیا مجال تھی کہ ان کے سامنے دم مارے - سب انہیں گھر کا مالک ذی اختیار سمجھتے تھے حتیٰ کہ وہ اس رقم میں سے کچھ گھر میں خرچ کرتیں اور کچھ پس اندازہ کر کے اپنے دوسرے بیٹوں کو بہووں کی امداد دیتیں - ان کی بی بی کو یہ انتظام پسند نہ ہوا اور گھر میں بے لطفی پیدا ہونے لگی - حضرت والا نے سامنے یہ واقعات ظاہر کئے گئے تو حضرت والا نے گھر کا کل اختیار بی بی کو دلوایا اور خرچ والدہ کا کل ان کے ذمہ اور جیب خرچ دس روپیہ ماہوار مقرر کرادیا اور بھائی بہنوں اور بھا وجوں سب لو الگ کردیا - قرآن شریف میں ہے لینفق ذو سعۃ من سعتہ یعنی مقدور والے کو عورت کا نفقہ اپنے مقدور کے موافق دینا چاہئے - نیز حدیث میں ہے کہ عورت اس واسطے ہے کہ خاوند کے مال کی حفاظت کرے - حفاظت کرنا پہرا دینے کا نام نہیں بلکہ بد نظمی سے بچانے کا نام ہے - اس سے صاف ظاہر