ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
اور نا تجربہ کار عالم اس کی از سر نو تنقیح کرنے لگتے ہیں - کڑا ہوا فتنہ پھر کھڑا آتا ہے اور سوائے تو تو میں میں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا - ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں : راقم سے ایک جگہ پوچھنا گیا کہ کوے کی نسبت تیرا کیا خیال ہے - راقم کو معلوم تھا کہ یہ لوگ صرف بک بک کرنے والے ہیں نہ تحقیق کی قابیلت ہے نہ تحقیق مقصود جواب دیا کہ اس باب میں دو فریق ہیں - محرم اور مبح ایک کے ساتھ مجھے بھی سمجھ لیجئے اور اگر دوبارہ پوچھو گے تو جواب یہ ہے کہ میں نہیں بتاتا کہ میرا کیا خیال ہے - حضور کے جواب ترکی بہ ترکی : بعج لوگ سمجھتے ہیں کہ سوال کا جواب نہ دینا من سئل عن علم فکتمہ الجم بلجام من النار ( جس سے مسئلہ پوچھا جاوے اور وہ نہ بتاوے تو قیامت کے دن آگ کی لگام دیجاوے گی ) کا مصداق بننا ہے - اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے سوال سوال عن علم ہی نہیں ہیں کیونکہ مقصود علم نہیں مقصود فتنہ پردازی ہے - مجادلین کے جواب میں خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا کہ ان کے سوال جیسا جواب دیکر ٹال دیجئے - کہیں فرماتے ہیں - اجرامی و انا بری مماتجرمون ( کہہ دیجئے کہ اگر قرآن میں نے اپنی طرف سے بنالیا ہے تو اس کا جرم میرے ذمہ ہے اور میں تمہارے جرموں سے بری ہوں یعنی جو کریگا پھریگا نہ تم میرے ذمہ دار ہو نہ میں تمہارا ) اور کہیں قل ان افتریتہ فلا تملکون لی من اللہ شیئا ( کہہ دیجئے اگر میں نے قرآن کو بنالیا ہے تو حق تعالیٰ کی طرف سے تم کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا یعنی یہ حق تعالیٰ کا جرم ہوگا وہ آپ سمجھ لیں گے ) و غیرہ من الآیات ہاں طالب علموں اورسمجھدار لوگوں سے اور تحقیق پسندوں سے دلیل بیان کرنا اور تشفی کردینا مناسب ہے واجب یہ بھی نہیں - الہ آنکہ معلم تنخواہ اسی کی پاتا ہو -