ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
تھے - حاجی صاحب نے جواب لکھوا کر مولانا ہی کو دیا کہ بندہ نے آپ کی بیعت قبول کی اور جواب بھی حضرت مولانا ہی قلم کا لکھا ہوا تھا جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا نے بھی اس خط کو دیکھا ہوگا مجھے بہت شرم آئی کہ حضرت مولانا کیا کہتے ہوں گے مجھے مولانا کو اسل دیکھتے ہی محبت زیادہ ہوگئی تھی اور وہ سب غالب رہی - ما الحب الا للحب الاول باوجود و محبت کے حضرت گنگوہی سے بیعت نہ ہونے کی حکمت باقی باوجود اس قدر محبت کے حاجی صاحب کے وصال کے بعد جو میں مولانا گنگوہی سے بیعت نہیں ہوا اس میں کچھ تو حکمت تھی اور کچھ نفس کی آمیزش کیونکہ درصورت بیعت تھوڑی اطاعت بھی موجب مسرت ہوتی ہے اور بیعت میں تھوڑی سی کوتاہی بی موجب کدورت ہوتی ہے کیونکہ حقوق زیادہ ہوجاتے ہیں اور استیفاء کما حمہ ممکن نہیں - اور بزرگوں کا مسرور رکھنا مکدر کرنے سے بہتر ہے لہذا میں بیعت نہیں ہوا اور یہی وجہ مرکب ہے حکمت وشائبہ نفس سے اعمال وہی مقبول ہیں جو سنت کے مطابق ہوں ( 27 ) بتاریخ مذکور - فرمایا اعمال وہ مقبول ہیں جو نصوص شرعیہ پر منطبق ہوں - لیکن ہم کتنی ہوکوشش کریں جما حقہ انطباق ممکن نہیں - حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرما دیا ہے سدوا وقاربوا ولن تحصوا یعنی حاق و وسط راہ مستقیم پر چلنا امکان عادی سے خارج ہے - چنانچہ حضرت حاجی صاحب کے خلفاء میں سے ایک صاحب نے چاہا کہ دو رکعتیں باکلک موافق سنت ادا کریں - اسباغ وضو کیا اور ادعیہ ماثورہ بھی پڑھیں اور اپنے نزدیک کویہ کم کوتاہی نہیں کی لکین پھر بھی ایک تو ایسی کوتاہی ہوئی جس کو وہ خود بھی جانتے تھے اور جن کی خبر نہیں ہوئی ایسی تو خدا معلوم کتنی کاتہیاں ہوئی یوں گی - یمارے تو اعمال سراپا کوتاہی ہیں اسی واسطے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے یہ اعمال و طاعات فی الواقع سئیات ہیں مگر اس کے دربار میں مبدل بہ حسانت ہوجاتے ہیں - اور وہ کوتاہی یہ تھی کہ نماز پڑھنے جو کھڑے ہوئے تو خطرات آنا شروع ہوئے اور ئ جزئی فقہاء نے لکھا ہے کہ خطرات کے خوف سے اگر آنکھیں بند کر لے جائز ہے - خیر نماز سے فارغ