ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
یہاں سے عوام کے مثنوی سے کچھ اخذ کر نیکا حال معلوم ہوگیا اور دیوان حافظ سے فال کھولنے کا حال بھی ظاہر ہوگیا کیونکہ دیوان حافظ مثنوی سے بھی زیادہ دقیق ہے اور بعض وقت جو عوام اور کم استعداد لوگوں کا مطلب بھی مثنوی سے یا دیوان حافظ وغیرہ سے حل ہو جاتا ہے - اول تو یہ اتفاقیات ہیں اور دوسرے یہ اس وقت ہوتا ہے کہ کوئی مضطر ہو حاجت دنیاوی کی وجہ سے یا طالب صادق ہو اور دین کی طلب میں بے چین ہو تو رحمت خداوندی مصنف کی روح کی برکت سے اسکی دستگیری فرمائی اور جب فاسد العقیدہ یا طلب دنیا اپنا مطلب پیش نظر رکھ کر اہل اللہ کی کتابو﷽ کو دیکھتا ہے تو بجائے ہدایت کے اور گمراہی حاصل ہوتی ہے جیسا قران شریف میں بھی یہی ہی کما قال تعالیٰ یضل بہ کثیرا اویھدے بہ کثیرا اہل اللہ نری رحمت ہی نہیں مظہر قہر بھی ہوتے ہیں : یہ بات خوب یار رکھنے کی ہے کہ ان کتابوں سے مطلب نکالنے کے وقت باکلک خالی الذھن ہونا شرط ہے اور پھر بھی وجوہات سمجھ میں آئے اس پر اعتماد کرنا نہ چاہئے - ایک گو نہ ظن حاصل ہوسکتا ہے کسی دلیل کا معارضہ اس سے نہ کریں بکلہ خائف رہیں کہ اہل اللہ نری رحمت ہی نہیں ہوتے جملہ فات کے مظہر ہوتے ہیں - قہر واضلال بھی ان سے ظہور میں آتا ہے اور اصل یہ ہے کہ مثنوی اور دیگر کتب اہل اللہ سے کوئی اکجھی ہوئی بات سکجھانا عارفین ہی کا کام ہے ہر شخص اس میں قدم نہ رکھے اور فال کھولنا اور پیشین گوئیاں کوتا تو صرف پیسہ کمانے کی ترکیب ہے - مجلس شصتم ( 60 ) حضرت والا نے عصر کے بعد سے مغرب تک کا وقت عام بات چیت کے لئے اور مغرب سے عشا تک خاص بات چیت کے لئے دے رکھا ہے جس کو تنہائی میں کچھ کہنا ہوتا ہے وہ اپنا نام ایک پرچہ پر لکھ کر عصر کا سلام پھیرنے کے بعد حضرت والا کو دیدیتا ہے - آپ بعد مغرب ایک ایک کو بلا کر تنہائی کے ساتھ بات کتے ہیں - احقر نے ہمیشی دیکھا تھا کہ اسکے لئے حضرت بعد مغرب مسجد ہی میں تشریف رکھا کرتے تھے مگر اس مرتبہ دیکھا کہ خارج مسجد حوض کے جنوب کی جانب اپنی سہ دری کے متصل رونق افروز ہوتے ہیں - حقر نے اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ