ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
مولانا محمد قاسم صاحب کو تین سو روپیہ ماہوار پر اور مولانا محمد یعقوب صاحب کو سو روپیہ ماہوار پر بلانا چاہا اور اس کے لئے درخواست بھی کی - مولانا محمد قاسم صاحب نے جواب میں لکھا کہ مجھے دس روپیہ ماہوار تنخوار ہ ملتی ہے جس میں پانچ روپیہ مجھے اور میری عیال کو کافی ہوجاتے ہیں - بقیہ پانچ روپیہ کے مصرف کا انتظام کرنا پڑتا ہے خدا بھلا کرے طلبہ کا کہ ان کی وجہ اس فکر سے سبکدوش ہو جاتا ہوں وہ پانچ روپیہ ان پر صرف ہو جاتے ہیں - اگر مجھ کو تین سو روپیہ ملنے لگیں تو مجھے تو وہی پانچ روپیہ کافی ہوں گے - باقی دو سو پچانوے کی فکر کون اپنے سر لے - مجھے اس سے معاف کیا جاوے - یہ جواب مولانا محمد یعقوب صاحب نے دیکھا فرمایا اصل جواب تو آپ نے لکھ دیا - میں کیا لکھو - پھر فرمایا کہ میں دوسرا جواب لکھوں گا- چنانچہ یہ جواب لکھا کہ میں تین سو روپیہ ماہوار سے کم منظور نہیں کرتا - اس جواب کو دیکھ کر مولانا محمد قاسم صاحب نے فرمایا کہ سوچ سمجھ کر لکھئے اگر انہوں نے تین سو روپیہ ماہوار منظور کرلئے اور ضرور منطرہ کر لیں گے تو آپ کو جانا پڑے گا اور تین سو روپیہ ماہوار آپ کی شان کے سامنے کیا چیز ہیں - فرمایا بہت اچھا میں اس کے آگے اور ایک شرط بڑھائے دیتا ہوں کہ جب تک میرا جی چاہے گا بھوپال رہوں گا اور جب تک جی چاہئے گا اپنے گھر پر رہوں گا - یہ دونوں جواب نواب صاحب کے پاس پہنچے تو کہا ارے بھائی یہ کہیں جانے والے نہیں ان کو اپنا فقر و فاقہ ہی پسند ہے - یہ کسی کی ملازمت کرنا نہیں چاہتے واقعی ان بزرگوں کی حالت کو دیکھ کر کون ہمیں دیکھے تو ہم تو اس کو بادشاہ نظر آئیں گے - آج کل دس دس روپیہ کیا چیز ہیں - سوکی بھی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے - حضرت گنگوہی کی ملازمت حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے کچھ دنوں تک سہارنپور میں قعلہ والوں کے یہاں ملازمت کی ہے - قلعہ والوں کے بچوں کو پڑھاتے تھے اور دس روپے ماہوار ملتے تھے - جب میں قعلہ میں گیا تھا تو نواب احمد علی خان کے چچا کو بھی میں نے دیکھا تھا جنہوں نے حضرت کا وہ زمانہ دیکھا تھا وہ بہت نیک تھے - سارے خاندان ہی پر نیکی کا اثر تھا یہ