ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
اذا سجی اے نفس تیری یہی سجا ( سزا ) نعوز باللہ - حضرت کے نا ناجی کا شعبدہ باز پیر سے معاملہ میرے منجھلے ماموں صاحب فرماتے تھے کہ نانا صاحب تھے طالب حق - گو اشغال دنیا میں پھنسے رہتے تھے - اور یہ اشغال اتنی مہلت و فرصت نہ دیتے تھے کہ شیخ کامل کی تلاش کرتے اور اس کی جستجو میں سر گرم رہتے لہذا ہر وقت بیتاب و بے قرار رہتے تھے - طلب عجب چیز ہے اس سے ہر روز نیا کرشمہ نظر آتا ہے - اسی سے انہیں ایک غلطی ہوئی یعنی ایک جاہل مدعی نے دعویٰ کیا کہ میں خدا کی تجلی دکھاتا ہوں انہیں طلب تھی غنیمت سمجھے اور نعمت عظمیٰ تصور کیا - اس زمانہ میں دیا سلائی کے بکس نئے نئے چلے تھے - یعنی دیہات و قصبات میں ابھی تک نہیں آئے تھے - صرف بڑے بڑے شہروں میں تھے - کہیں سے ایک بکس اسے مل گیا تھا - یہاں سے تخمینا تین میل پر ایک مقام ہے غوث گڑھ وہاں ان کو لے گیا نوافل پڑھوائے اذکار کی تعلیم کی اور کہا آنکھیں بند کر کے قلبہ رو ہو کر مراقبہ کر کے بیٹھ جاؤ - جب میں ہوں کہوں تو آنکھ کھول دینا یہ بیٹھے رہے - اس نے پشت کی طرف کھڑے ہو کردیا سلائی کو روشن کیا اور سر پر لا کر کہا ہوں - آنکھ جو کھولی تو تمام مسجد روشن ہے حیران ہوئے مگر تھے خواندہ - اسی میں اپنا سایہ دیکھ کر سوچے کر تجلی خدا کی تو یہ شان نہ ہونا چاہیئے کہ اس کے ساتھ ظلمت جمع ہو - اس کی کیفیت و حالت تو یہ ہونا چاہیئے چو سلطان عزت علم برکشد جہاں سر بجیب عدم درکشد سمجے کہ یہ حیلہ سازی ( شعبدہ بازی ہے سر اٹھا کر جو دیکھا دیا سلائی ہاتھ میں ہے غصہ سے بھڑک گئے - نکال کے جوتہ خوب ہی اچھی طرح ذد و کوب کی اور خوب مرمت کر دی - آدمی شوق طلب میں بہت دھوکے کھاتا ہے مجس وخانقاہ میں تو دھوکا کھاتا ہی ہے بعض احوال میں مند دیر کنشت ناقوس میں گرفتاری کا خوف ہوتا ہے وہم ہوتا ہے کہ شاید مطلوب اسی میں مل جائے اور یہ اکثر نتیجہ خود رائی کا ہوتا ہے خدا کا ہزار ہزار احسان ہے اگر کسی شخص کو کوئی رہبر کامل و معلم مل جاوے ورنہ ہزار گھاٹیاں پیش آتی ہیں جس بجز شیخ کے کوئی