ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
میں سوال کریں گے - یا علماء و فقراء کا یہ مقصود ہو کہ ہمارے علوم وکمالات معلوم ہونگے تو لوگ م سے مستفید ہوں گے - یہ محمدود ہے جیسے حدیث شریف میں ہے - انا سید ولد آدم یوم القیامۃ ولا فخرو آدم و من سواہ تحت لواتی یوم القیامۃ ولا فخر مطلب لا فخر کا یہ ہے یہ ازراہ تحدث بالنعمہ ہے تکبر و فخر سے نہیں در اصل یہ دعویٰ نہیں - دعوت ہے سیدنا غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے بہت بڑے بڑے دعاوی کئے ہیں صوفیائے کرام کے دعوے شیخ عبد الحق صاحب محدث علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ جتنے دوے صوفیہ کے کلام میں پائے گئے ہیں کسی طائفہ کے کلام میں نہیں - اسی وجہ سےبعض مرتبہ مشائخ بیعت کی خود اصلاح دیتے ہیں لیکن بطور ندرت و زدوذ ایک شخص بیان کرتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب نے مجھ سے فرمایا ہم سے بیعت ہوجاؤ میں نے کہا دو شرطوں سے ایک ناچ دیکھنا نہ چھوڑوں گا دوسرے نماز نہیں پڑھوں گا - فرمایا ہا یہ شرطیں قبول ہیں - بشرطیکہ تم ہماری ایک شرط قبول کرلو - میں نے کہا فرمایئے کہا تھوڑا سا ذکر اللہ کر لیا کرو میں نے منظور کرلیا - نماز کا وقت آیا بدن میں خارش ہوئی کھجلانے اور علاج سے اور زیادہ ہو کہتے تھے بطور الہام کے میرے دل میں آیا اضو کرلوں - وضو کرتے ہی آدھی خارش رہ گئی اس کے بعد میں نے کہ انماز بھی پڑھ لوں باکلک جاتی رہی - اب جب نما کا وقت آتا یہی حالت پیش آتی - میں سمجھ گیا کہ بے شک شیخ کامل ہیں یہ نہ نماز چھوڑنے دیں اور نہ ناچ دیکھنے دیں گے اسی وقت توبہ کرلی - فرمایا کہ مجھ کو بھی حاجی صاحب نے خود ہی بیعت کیا تھا - قصہ یہ ہوا تھا کہ میں دیوبند میں طالب علمی کرتا تھا - حضرت مولانا گنگوہی تشریف لائے میں نے بیعت کو عرض کیا فرمایا طالب علمی کے بعد کرنا اور ایام طالب علمی میں اس کو کٰال شیطانی سمجھو - حالانکہ ایک طالب علم صاحب کو کسی مصلحت سے بیعت کرچکے تھے - اس وجہ سے مجھے اور حرص بڑھی - میں نے حاجی صاحب کو خط لکھا کہ حضرت نے مجھے بیعت نہیں کیا آپ سفارش فرمادیں اسی سال مولانا حض کو تشریف لے گئے