ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
قاعدہ جو غلطیاں کاتب سے ہوئیں ان سے بنوائیں اور بعض جگہ ایک دو لفظ تصنیف میں بھائے تو ان کی اجرت عیلحدہ دی حالانکہ یہ بہت ہی ذرا سا کام ہے ایسا کہ اگر کوئی راہ چلتا بھی کاتب سے اتنا لکھوائے تو اصلا بار نہ ہو - جو شخص معاملات میں اتنا محتاط ہو اس سے بچجا تشدد کیسے ہو سکتا ہے - ہاں جب اپنی طرف سے معاملہ کی اتنی صفائی ہے تو کام بھی درست اور صاف لینا حق بجانب ہے - سو اس کام لینے کی بھی یہ حالت ہے کہ یہ کتاب جس پر یہ قصہ ہوا تربیت السالک تھی - مختلف طلبہ کے ہاتھ سے لکھی گئی کسی کا خط اچھا تھا اور کسی کا برا کسی کی سطریں بھی سیدھی نہ تھیں مگر حضرت والا نے با وجود لطافت مزاج باتوں کو نظر انداز کیا - اصل کام کی طرف توجہ رکھی - بد خطی وغیرہ کی پروانہ کی لیکن غلطیوں کو نظر انداز کرنا کتاب کا اتلاف ہے - خدا نخواستہ کوئی لفظ غلط ہو جاوے کہ مطلب بر عکس ہو جاوے تو بہت سی گمراہی کا موجب ہے - تغافل امور دنیاوی میں بھی مذموم ہے : ( 2 ) تغافل گو دنیاوی کاموں میں ہو مذموم شرعی ہے جس کی طبیعت میں تغافل ہوتا ہے تو دنیا ہی تک محدود نہیں رہتا دین تک پہنچتا ہے ہاں طبیعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ دنیاوی امور میں تغافل ہوتا ہے اور دینی امور میں نہیں ہوتا مگر اس حالت سے یہ حالت زیادہ اچھی ہے کہ نہ دنیاوی امور میں تغافل ہو نہ دینی میں - حضرات انبیاء علہیم السلام کو عقل دنیا بھی تمام مخلوق سے زیادہ عطا ہوتی ہے اس کا بیان حکمت دوم میں آچکا ہے - کسی سے کام کو کہنا سوال ہے : دوسرے شخص سے کسی کام کو کہنا سوال میں داخل ہے جس کی نسبت حدیث میں ہے السوال مذلۃ یعنی سوال ذلت ہے - پس اگر وہ شخص جس سے کام کو کہا گیا ناراضی سے کام کرے تو یہ ظلم ہوا گو وہ بڑا آدمی دیکھ کر کچھ کہہ نہ سکا - حدیث میں ہے - احب لا خیک المسلم ماتحب لنفسک تکن مسلما یعنی اپنے بھائی مسلمان