ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
یعنی قیدیوں کا حکم یہ آیا ہے کہ یا مال کے چھوڑ دیا جاوے یایو نہی تبرعا چھوڑ دیا جاوے - یہ صرف علماء کی گڑہت ہے کہ بردہ فروشی جائز ہے - وہ نئے خیال والے صاحب کہہ رہئے تھے کہ دیکھئے سر سید کا استدلال آیت ہے اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے - مولوی صاحب نے کہا یہ بھی غور کیا آپ نے کہ فاما منا بعد و اما فداء قضیہ کونسا ہے بس اتنے ہی جواب سے وہ سمجھ گئے اور کہا بس جواب مل گیا واقعی اس کے منٖصلہ حقیقتۃ یا مانعۃ الخلو ہونے پر کوئی دلیل نہیں اور استدلال ایس پر موقوف ہے ممکن ہے کہ قضیۃ مانعۃ الجمع ہو - واذا جاء الا حتمال بطل الاستدلال - فرمایا حضرت والا نے میں نے اپنی تمام تفسیر بیان لقرآن میں اسی طرز سے مطالب کی تقریر کی ہے جو کوئی انصاف اور تحقیق کی نظر سے دیکھے گا وہ اس میں پائے گا جو کچھ پائے گا اور ثابت ہوگا کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہی حق ہے اور سلجھی ہوئی بات ہے نہ یہ کہ کھینچا کھینچ سے اپنے موافق اس کو بنایا گیا ہے - تولیت اختیار نہ کرنا حضرت حاجی صاحب کا : اور حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اذکار میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت سلطان ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ کے مزار ( جو ملک شام میں ہے ) کے متعلق کچھ اوقاف ہیں جن کی آمدنی کثیرہ ہے اس کے متولی کا انتقال ہوگیا تھا - اور بعض مشائخ نے اس کو حضرت صاحب کے لئے اس لئے تجویز کیا کہ خود متولی بھی اپنے مصارف اس سے بطریق مباح لے سکتا ہے اور حضرت صاحب کے پاس کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے تو اس سے اطمینان کی صورت ہو جاوے گی اور حضرت صاحب میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ حضرت صاحب ان کی اولاد میں ہیں اور حضرت صاحب کو وہاں رہنے کی ضرورت بھی نہ تھی - کوئی نائب کام کرتا اور احکام یہاں سے پہنچتے رہتے - عرض یہ تجویز کر کے حضرت صاحب سے عرض کیا گیا آپ نے فی البدیہ ارشاد فرمایا کہ اولاد میں ہونے کی خصوصیت سے میرے لئے تولیت تجویز کی گئی ہے تو حضرت سلطان نے تو سلطنت بلخ پر لات مار دی تھی - اگر میں اس دنیا کو اختیار کروں تو ان کی اولاد خلف کب رہا اور اس خدمت کے لئے خلف ہونا ضروری ہے اور اگر خلف بننا چاہوں