ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
سے کوئی امر خلاف فطرت دیکھ لیں یا کسی کی پیشین گوئی پوری ہوجاوے اس سے عقیدہ رکھنے لگتے ہیں اور کوئی اس کو ولی سمجھتا ہے اور کوئی صاحب خدمت اور کیا کیا اور خیال راقم کا یہ ہے کہ اس حکمت بست و پنجم سے شاید اس غلطی کی تائید کی جاوے - اس واسطے مناسب ہے کہ کرمات کے متعلق تحقیق عرض کی جاوے - راقم اس بحث کو حضرت والا کی کتاب مسمی کرامات امدادیہ سے نقل کرتا ہے - فانہ شاف و کاف مبالا مزید علیہ مسئلہ اول : جاننا چاہئے کہ خلاصہ کلام محقیق کا اس باب ( باب کرامت ) میں یہ ہے کہ کرامت اس امر کو کہتے ہیں کو کسی نبی الصٰلوۃ وا لسلام کے کسی متبع نہیں ہے - اور جس شخص سے وہ امر صادر ہوا ہے اگر وہ کسی نبی کا متبع اپنے کو نہیں کہتا وہ بھی کرامت نہیں ہے جسیے جوگیوں ساحروں و غیرھم سے بعض امور ایسے سرزد ہوجاتے ہیں اور اگر وہ شخص مدعی اتباع کا تو ہے مگر واقع میں متبع نہیں ہے خواہ اصول میں خلاف کرتا ہو جس طرح اہل بدعت یا فروع میں جیسے فاسق اور فاجر اس سے اگر ایسا امر صادر ہو وہ بھی کرامت نہیں ہے بلکہ استدراج ہے جس کا ضرریہ ہے کہ یہ شخص بوجہ خرق عادات کے اپنے آپ کو کامل سمجھتا ہے اور اس دھوکہ میں کبھی حق کے طلب کرنے اور اتباع کرنے کی کوشش نہیں کرتا - نعوذ باللہ کس قدر خسران عظیم ہے - پس کرامت اس وقت کہلائے گی جبکہ اس کا محل صدرو مومن متبع سنت کامل التقویٰ ہو - اب ہمارے زمانہ میں جس شخص سے کوئی فعل عجیب سرزد ہوجاتا ہے اس کو غوث و قطب قرار دیتے ہیں - خواہ اس شخص کے کیسے ہی عقائد ہوں اور کیسے ہی اعمال و اخلاق ہوں - یہ بہت بڑی غلطی ہے - بزرگوں نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کسی شکص کو ہوا میں اڑتا ہوا یا پانی پر چلتا ہوا دیکھو مگر وہ شریعت کا پابند نہ ہو تو اس کو بالکل ہیچ سمجھو - مسئلہ دوم : اور جاننا چاہئے کہ کرامت کے لئے نہ اس ولی کو اس کا علم ہونا ضروری ہے نہ اس کے قصد کا متعلق ہونا ضروری ہے - اور احیانا علم ہوتا ہے اور قصد نہیں ہوتا اور کبھی علم و قصد دونوں امر ہوتے ہیں - اس بناء پر کرامت کی تین قسمیں ٹھہریں - ایک قسم وہ جہاں علم بھی ہو اور قصد بھی جسیے نیل کا جاری ہونا - حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے فرمان