ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
آلہ واصحابہ و بارک وسلم کے روبرو یہ گستاخی کیوں سرزد ہوئی - ( گویا علیکم بسنتی وسنۃ خلفا الراشدین المھدیین پر بالا خطرار عمل ہوتا تھا - جامع 12 ) ایک شعر کی عجیب غلط تشریح ( 2 ) 5 رمضان المبارک 1333 ھ نیز درس تکشف میں درکوے نیکنامی مارا گزر ندا دند گر تو نمی پسندی تغیی کن قضا را کی تحقیق میں فرمایا کہ ایسا ہی ایک اور شعر ہے - گناہ گرچہ نبود اختیار ما حافظ تو در طریق ادب کوش کیں گناہ من است اور اس پر ایک لطیفہ فرمایا کہ میں ایک مرتبہ لکھنو میں ظہر کی نماز کے واسطے ایک مسجد میں گیا جب نماز سے فراغت ہوئی ایک شاہ صاحب نے اپنے پاس بلا لیا میں جا بیٹھا کہنے لگے کہ بزرگوں کا کلام سمجھنا بہت دشوار ہے - بعض عبارات ایسی ہیں کہ جن کا مطلب سینہ بسینہ ہی چلا آتا ہے - کتب و حواشی و شروح میں پتہ و نشان نہیں - دیکھئے حافظ شیرازہ کا یہ شعر ہے - گناہ گرچہ الخ ہمارے مرشد کامل نے اس کی بابت عجیب و غریب تحیقق کی ہے - فرماتے ہیں - گناہ گر منادیٰ ہے اور حرف ندا محذوف - یعنی اے گناہ گر - اور اسم فاعل ترکیبی کے واسطے ہے جیسے آہن گر اور زر گر اور کوزہ گر - یعنی اے گناہ کے صانع - وہ کون ہے خدا تعالیٰ تو گویا خدا تعالیٰ کو مخاطب کیا - ادھر سے جواب آیا - چہ کیا ہے اے بندے - انہوں نے عرض کیا نبود اختیار یعنی ہم وقوع فی الاثم میں مضطر ہیں - اور ہماری طاقت سے احتراز عن الاثم باہر ہے - فرمایا ماحافظ ہم حافظ ااور ذمہ دار ہیں - کوئی رنج و فکر کی بات نہیں - میں ایک ہی مصرعہ کی تحقیق سن کر اٹھ کھڑا ہوا کہ نا معلوم دوسر مصرعہ میں کیا گلفشانی فرماویں گے - بھلے آدمی نے مرشد کو بھی بدنام کیا - یامرشد بھی ایسے ہی ہوں گے - میں سمجھتا تھا کوئی لطیفہ کوئی نکتہ سنائیں گے - جاہل درویش کی تفسیر فرمایا ایسے ہی یہاں ایک جاہل درویش تھا - کمبخت کہا کرتا تھا والضحیٰ وا للیل