ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
راقم کہتا ہے کہ حضرت حاجی صاحب اور حضرت محدث گنگوہی قدس سر ہما کا قصہ اس کا کافی شاہد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت حاجی صاحب کو مکہ معظمہ میں کسی نے مجلس مولود شریف میں بلایا تو آپ نے منظور فرمایا - حضرت محدث گنگوہی موجود تھے - حاجی صاحب نے فرمایا تم بھی چلو - عرض کیا میں نہیں جاسکتا ہوں کیونکہ میں ہندوستان میں لوگوں کو منع کرتا ہوں اس وقت اگر میں شریک ہوں گا تو یہ مشہور ہوجاوے گ کہ میں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تو حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ تمہاری اس مخالفت سے مجھے زیادہ خوشی ہوئی اس سے کہ تم میرے ساتھ چلتے - چنانچہ حضرت تشریف لے گئے اور مولانا نہ گئے - یہ روایت راقم نے حضرت والا سے بمقام کانپور 13 رمضان 1312 ھ کوسنی تھی - اس شخص کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی جس نے پوچھا تھا کہ سنا گیا ہے کہ فیصلہ ہفت مسئلہ حضرت حاجی صاحب کا نہیں ہے فرمایا ہاں اس معنی کر نہیں ہے کہ حضرت نے خود نہیں لکھا - عبارت میری ہے اور مضمون حضرت کا - حضرت کے حکم لکھا گیا اور بعد لکھنے کے سنایا گیا تو فرمایا کہ اس کو میری طرف سے شائع کرو - حضرت کے یہاں اسی طرح کتابیں لکھی جاتی تھیں اور آپ کا نام ڈلا جاتا تھا - حضرت بوجہ کثرت مشاغل خود نہیں لکھتے تھے - راقم کے پاس حضرت والا کی بسیط تقریر مورخہ 13 رمضان 1312 ھ موجود ہے جس میں سائل سے کئی بار اسی مضمون پر سوال و جواب ہے اور علماء دیوبند اور حضرت حاجی صاحب کی ظاہری مخالفت کا چھی طرح حل - بخوف طویل یہاں نقل نہیں کیا - خلاصہ اس کا یہ ہے کہ احکام شرعی کے لئے دو حثتیں ہوتی ہیں - حیثیت اصلاح عوام اور حیثیت حلت و حرمت کبھی ایک حکم مباح ہوتا ہے مگر اس سے منع کیا جاتا ہے انتظا و سیاستہ - فقہ میں اس کی نظیر سجدہ شکر کے بارے میں امام صاحب کا قول ہے کہ مکروہ ہے حالانکہ نصوص میں اس کا ثبوت موجود ہے - حدیث میں لفظ فخر ساجدا آیا ہے تو اسی جنس سے حضرت حاجی صاحب اور علماء دیوبند کے یہ دونوں قول ہیں - مجلس شانزدہم ( 12 ) اصلاح رسم طعام میت : بیان فرمایا کہ اب تھانہبھون میں موت میں جہاں کہیں عورتیں جاتی ہیں وہاں نہ کھاتا