ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
حضرت ضامن شہید کی کرامات ( 47 ) بتایرخ مذکور فرمایا حضرت حافظ ضامن صاحب اپنے مرشد حضرت میانجی صاحب ہمراہ جوتہ بغل لے کے اور گردن میں تو برہ ڈال کے جھنجانہ جاتے تھے اور ان لے لڑکے کی سسرال بھی وہیں تھی لوگوں نے منع کیا کہ آپ اس حالت میں جایا کیجئے وہ لوگ ذلیل حقیر سمجھیں گے - فرمایا وہ اپنی ایسی تیسی میں جاویں اور اپنے رشتہ کو چھڑوالیں میں اپنی سعادت کو نہیں چھوڑ سکتا - اور وہ لوگ کہا کرتے ہائے تقدیر کیا ذیل سمدھی ملا - یہ تو حافظ صاحن کی کرامت معنویہ کا بیان تھا پھر ایک کرامت حسیہ کا بیان کیا کہ پہلے اشراف ار ذال عوام خاص سب دلہن کے ڈولہ پر بکھیر کیا کتے تھے چنانچہ حافظ صاحب بھی بھیرے کرے تھے ایک جھنجانوی شخص کے سر میں منصوری پیسہ لگا بیچارہ بیٹھ گیا سر خون آلودہ ہوگیا - جب وہ شخس صلٰوہ مغرب سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا حافظ صاحب کو دیکھا کہ آپ نے اس سے معافی چاہی اس نے معذرت کی ذدا آنکھ اوجھل ہو اس سے غائن ہوگئے وہ سمجھا کہ حافظ صاحب سامنے کی بیٹھک میں چلے گئے ہونگے بیٹک میں جاکر دریافت کیا سب نے اسے پاگل و دیوانہ بنایا سمجھنے والے سمجھ گئے کہ حافظ کی کرامت ہے - اس کے بعد بیان فرمایا کہ حافظ صاحب تو اس طرح سے جھنجانہ ہی جاتے تھے جہان وطن نہ تھا اور خود عالم بھی نہ تھے - حضرت مولانا اسماعیل شہید حضرت مولانا اسماعیل شہید اپنے شہر میں بڑے جید عالم سب لوگ جاننے والے مگر سید صاحب کا جوتہ بغل میں دبائے سب سے سلام علیک کرتے پالکی کے ساتھ دوڑا کرتے تھے مجلس میں بھی جوتوں کے پاس سید صاحب کا جوتہ لئے بیٹھے رہتے تھے اور اگر کسلمندی سےلیٹتے تو جوتہ سر کے نیچے رکھ لیتے - کبھی سید صاحب کو جوتہ تلاش کرنے کی نوبت نہیں آئی - جس طرف چاہتے بے تکلف آزادانہ چلے جاتے تھے وہیں جوتہ موجود پاتے تھے - کسی نے مولانا شہید سے دریافت کیا کہ آپ کو سید صاحب سے اعتقاد کیسے ہوا - فرمایا ایک مرتبہ بارش ہوئی سب لوگ مسجد میں مجمتع تھے مسجد بیچ میں سے ٹپکتی تھی جماعت کے وقت سب