ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
جفرافیہ تک میں چھپ گیا کہ فلاں جھیل میں سے نکلا ہے - راقم نے کہا ہم کو منبع اسکا یورپ سے پہلے معلوم تھا حالانکہ ہم دورنیل کو دیکھا تک نہیں - کہا کیا معلوم تھا - راقم نے کہا یہ معلوم تھا کہ مصر سے اوپر ہے - سبحان اللہ اس کو منبع کہتے ہیں - منبع وہ ہے جہاں سے شروع ہوا ہو اور اس سے اوپر اس کے وجود نہ ہو - راقم نے کہا بس یہی جواب ہے جس سے جھیل کو منبع مانا - یہ بھی تحقیق ہوگیا کہ اس میں پانی کہاں سے آتا ہے - کیا پانی وہیں پیدا ہوتا ہے اور اس سے اوپر وجود نہیں ہے - کہا نہیں - یہ تو آج تک تحقیق نہیں ہوسکتا کہ سوتھ میں سے پانی کیوں ابلتا ہے - بعض سائنس والوں کی رائے یہ ہے کہ زمین کے اندر ہے اور اس کے نیچے آگ ہے - اس کے دبکے سے پانی اوپر کو جوش مارتا ہے - اسکا قرینہ یہ ہے کہ سوتھ میں سے پانی گرم نکلتا ہے راقم نے کہا جب آپ مانتے ہیں کہ اس جھیل سے بھی اوپر پانی کا وجود ہے تو جھیل منبع کیسے ہوا - اس میں اور اس میرے تحقیق میں کیا فرق ہوا کہ مصر سے اوپر منبع ہے - شریعت نے اصل الاصول کو بیان فرمایا ہے نہ مصر سے اوپر کو نہ جھیل کو نہ سوتھ کو بکلہ اس جگہ کو منبع فرمایا جس سے اوپر پانی کا وجود نہیں یعنی جنت - کہنے لگے کیا جنت سے کوئی نل لگا ہوا ہے جس میں سے پانی سوتھ میں اور جھیل میں آتا ہے - راقم نے کہا اس تحقیق کی ہم کو ضرورت نہیں جتنا بتلایا گیا ہے - اتنا کافی ہے جیسے کہ آپ نے اسپر کفایت کی کہ جھیل میں سوتھ میں سے پانی ابلتا ہے اور اسکی تحقیق کو چھوڑ دیا کہ سوتھ میں سے پانی باوجود ثقیل بالطبع ہونے کے اوپر کو کسیے جوش مرتا ہے - بارش کی اصل مون سون ہے : ہاں تقریب الی الفہم کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ جیسے آج کل یہ مانا جاتا تھا کہ بارش کا مادہ زمین کے بخارات ہیں جو جوکی سردی سے منجمد ہو کر ٹپک پڑتے ہیں لیکن اب مانا جانے لگا کہ زمین کے بخارات نہیں بکلہ سمندر کے بخارات ہیں جو خاص وقت میں پیدا ہوکر اطراف عالم میں پھیلتے اور پانی بنتے ہیں جو کو مانسون کہتے ہیں - تو بعد قطع و سائط یہ کہنا بجا ہے کہ بارش کا منبع سمندر ہے - بتایئے سمندر سے بادلوں میں کونسا نل لگا ہوا ہے اور کونسی