ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
ترقی رکھا ہے - حالانکہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ دل میں خودی اور خودرائی پیدا ہو جاتی ہے اور آپ ہی آپ محققیت کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں آج کل کے فلسیوں ( سائنس دانوں ) کی سمجھ ایسی موٹی ہوتی ہے کہ ذرا ذرا اسی بات نہیں سمجھتے اور خود سمجھتے نہیں اور دوسرے کی سنتے نہیں اور اپنے ہی آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں - حالانکہ جواب ایک بات کا بھی نہیں آتا - قصہ رام پور مکالمہ دربارہ معراج : میں ایک دفعہ رام پور گیا - مدار المہام صاحب یہاں قیام تھا - ایک صاحب شاہی خاندان کے تشریف لائے ( یہ لوگ وہاں صاحبزادے کہلاتے ہیں ) اور مجھ سے ملے اور باتوں میں یہ بھی پوچھا کہ جناب کی تحقیق معراج کے بارہ میں کیا ہے - میں نے کہا یہ سوال ہی آپ کا ٹھیک نہیں ایک پابند مذہب سے اس پوچھنے کے کیا معنی کہ فلاں مذہبی مسئلہ میں تیری کیا تحقیق ہے - اس کی وہی تحقیق ہوگی جو مذہب کی ہوگی - جب میں اسلام کو حق سمجھتا ہوں تو معراج کو اور اس کے تمام مسائل کو بھی حق سمجھتا ہوں - پھر اس پوچھنے کے کیا معنی - یہ بہت کھلی ہوئی بات تھی مگر اپنی غلطی کا انکشاف اب بھی نہ ہوا - میری بات کا جواب تو دیا نہیں اپنی ہی ہانکنے لگے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جسد عنصری کا وپر اٹھنا کیسے ممکن ہے - میری طبیعت بہت الجھتی تھی کیونکہ جب مخاطب بات کو سمجھے اور قاعدہ سے گفتگو کرے تو اپنا بھی دل کھے ورنہ سوائے انقباض کے کچھ نہیں ہوتا - دل میں تو آیا کہ خاموش ہو رہوں مگر ایک اور ان لوگوں کو خبط ہے کہ خود تو جواب سے عاجز ہوں اور بات بے ڈھنگی کریں اور سکوت کرنے سے دوسرے کو کہتے ہیں جواب نہیں آیا - اس واسطے میں نے سکوت نہیں کیا اور کہا یہ ( یعنی ارتفاع جسد عنصری الی فوق ) محال ہے یا ممکن مستبعد ہے کہ محال ہے مجھے افسوس آیا کہ ان کو محال اور ممکن کی تعریف تک نہیں آتی اور تحقیق کے مدعی ہیں اور بحث کرنے کو تیار ہیں میں نے ان سے کہا محال کس کو کہتے ہیں اور ممکن اور مستعبد کی کیا تعریف ہے ان کو بیان کیجئے تاکہ میں سمجھ سکوں کہ مسئلہ زیر بحث کو محال کس طرح کہا گیا ہے ٓ پس کھوئے گئے مگر وہی مرغی کی ایک ٹانگ اب بھی ہانکے جاتے ہیں کہ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ ایک ثقلیل جسم اوپر کو اٹھ