ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
تحائف کے بارے میں حضرت حیکم الامت کے اصل ( 122 ) بتاریخ مذلور - فرمایا جو اصحاب واحباب میرے واسطے تحائف و ہدایا لاتے ہیں مناسب ہے کہ لانے سے پہلے مجھ سے دریافت کر لیا کریں میں انہیں منع نہ کروں گا وہ پوچھنے سے شرمائیں نہیں دوستوں سے شرمانا ہی کیا اس پوچھنے میں یہ فائدہ ہوگا کہ ہدیہ کے حدود کی رعایت حاصل ہوسکے گی - ورنہ جب اس کو حدود سے خارج دیکھوں گا تو عذر کروں گا اور قانون کے سبب مروت کو چھوڑنا پڑے گا کیونکہ قانون و مروت ایک جا جمع نہیں ہوسکتے اور گو میرے قوانین و ضوابط کو خلاف مروت سمجھا جاتا ہے مگر ان کی قدر بعد میں معلوم ہوگی بلکہ اب بھی جب مفاسد پیش آتے ہیں تب ان کی قدرو منزلت معلوم ہوجاتی ہے - یہ قوانین میں نے سوچ سوچ کر نہیں گھڑے ہیں تجربہ نے ان قوانین کے پابند ہونے پر مجبور کیا ہے - مثلا میرا قاعدہ ہے کہ کسی شخص سے اول ملاقات میں ہدیہ نہیں لیتا - جب تک اس کے اخلاص اور درونی حالات سے اطلاع نہ ہو ایسے ہی جو شخص نماز جمعہ کے واسطے آتا ہے میں اس سے کچھ نہیں لیتا - عوام الناس کی رسم پرسی ( 123 ) بتاریخ مذکور - فرمایا ایک صاحب استفتاء لائے اور ایک رئیس کو سفارش کے لئے ساتھ لائے سوال میں بعض کوتہیاں تھیں - میں نے کہ کہ سوال کو با قاعدہ لکھئے فلاں فلاں نقص کو پورا کیجے ان کی سمجھ میں نہین آتا تھا - کہتے تھے اس میں اور میں فرق ہی کیا اس میں قاعدہ ضابطہ کی کونسی ضرورت ہے خیر میں نے خود سوال میں کچھ ترمیم وضافہ کر کے جواب لکھ دیا اگلے روز میرا سہانپور جانا ہوا وہ صاحب اسٹیشن پر مجھ سے ملے بہت تپاک سے مصافحہ کیا اور کہا اس وقت آپ میری کوش قسمتی سے تشریف لائے ہیں - فتویٰ میں کہیں کہیں آپ جو لکھ کر کاٹا ہے وہاں دستخط کر دیجئے ( جلدی میں کہیں کا کی جگہ کو اور کو کی جگہ کا لکھ گیا تھا اور نظر ثانی میں اس درست کردیا تھا ) میں نے کہ اس کی کیا حاجت ہے - کا کے مقام پر تو کاہی ہوگا - کی تو ہو ہی نہیں سکتا - کیونکہ مضاف مذکر ہے ایسے ہی اور جو حروف کاٹے ہیں اور صحیح بنائے ہیں اس کے علاوہ تو ہی نہیں سکتے - پھر اس میں دوسرے تصرفات کا کیا احتمال