ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ایک تازگی اور انشراح کی سی حالت رہتی ہے - فرمایا کہ اتنا مزاح و مطائبہ و فکاہت جس سے تکلیف نہ ہو جائز بلکہ مستحسن و محمود ہے حکمت یہ ہے کہ ماتحت لوگ کشادہ رو اور دل خوش و بے تکلیف ہوجائیں - اداے مافی لضمیر میں حجاب نہ ہو البتہ وہ ہنسی مذاق جو سبب اذیت ہو تمسخر ہے جو منیہ عنہ بالنص ہے لا یسخر قوم من قوم ہمارے اکابر کی شان ( 15 ) بتاریخ مذکور فرمایا امت میں ایسا اتفاق کم ہوا ہے کہ بہت سے کاملین ایک زمانہ میں مجتمع ہوئے ہوں البتداء کے بعد وسط میں ایسا زمانہ ایک تو شیخ عبدا القادر صاحب جیلانی کا تھا - اس کے بعد اخیر میں شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی ایسا ہی زمانہ ہوا - پھر ہمارے حضرات کا زمانہ ہے کہ ایک دوسرے کے انوار سے ہر ایک مغلوب ہے اور ادب کی وجہ سے اپنے انوار ظاہر نہیں کرتا - جب اٹھتی ہے مجموعہ پر پڑتی ہے اگر ہر ایک ان حضرات سے فردا فردا ہوتا تو امام وقت و شیخ زمان سمجھا جاتا - فوت شدہ بزرگوں کا بھی احترام : فرمایا کہ جیسا ادب احیاء میں ہوتا ہے - اموات میں بھی ہوتا ہے چنانچہ جہنجانہ میں ایک صاحب کشف آئے تھے انہوں نے میاں جی صاحب کے مزار کی زیارت کی تو کہا افسوس کس ظالم نے ان کو یہاں حضرت امام سید محمود صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے دفن کردیا یہ یہاں ادب کی وجہ سے اپنے انوار رو کے ہوئے ہیں - اگر کسی ویرانے میں ہوتے تو دنیا ان کے انوار سے جگمگاتی اور اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان کی ہڈیاں نکال کر کہیں علیحدہ فدن کرتا پھر ان کے انوار وفیوض و برکات مشاہد ہوتے ایسے ہی ادب کی میں نے کہیں یہ حکایت دیکھی ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے والد مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب کبھی کبھی حضرت شاہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور آپ کا مزار با انوار نئی دہلی سے سات کوس ہے ایک روز مراقب ہو کر بیٹھے کہ قطب صاحب کی روح منکشف ہوئی - انہوں نے سماع کی بابت دریافت کیا - فرمایا تمہارا شعر کے بارے