ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
دروازے پر آوے تو اس کی عزت کردوہ اس وقت صرف امیر نہیں ہے نعم الامیر ہے اس کے نعم کی تعظیم ہے - ہاں یہ درست ہے کہ ان سے اپنی کوئی حاجت نہ مانگے اسی معنی کر کہا ہے - ما آبروئے صبر قناعت نبی بریم بابا وشہ بگوئے کہ روزی مقدر ست امراء کی صحبت کے مفاسد : حضرت والا امراء سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے کوئی چھوٹا بڑے سے پیش آوے لیکن استفا کی وہ حالت ہے جو اس قصہ بہاولپور کے حرف حرف میں بھری ہوئی ہے - اصل اس میں یہ ہے کہ امراء سے ملنا قبیح لغیرہ ہے یعنی خوشامد اور سکوت عن الخلق اور مد اہنتہ فی لدین اور استغال لا یعنی اور جب مال وجاہ اور احتیاج الی غیر اللہ وغیرہ کو مستلزم ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے اور اگر یہ مفاسد نہ ہوں خواہ امیر کی طرف سے کہ وہ خود دیندار اور ان مفاسد سے پرہیز گار ہو یا جانے والے کی طرف سے کہ وہ اس قدر قوی النفس ہو کہ ان مفاسد سے بچ سکے یا اور کسی وجہ سے ان بلیات سے حفاظت ہوسکے تو کچھ خرج نہیں اور اگر کوئی ضرورت دینی ہو کہ خود امیر کی اصلاح کی امید ہو یا اور کوئی ایسی ہی ضرورت دینی داعی ہو تو امیر کے پاس جانا مستحسن ہے - یہاں سے بہت سے اہل اللہ کے متعلق شبہات رفع ہوجاتے ہیں جس سے امراء سے ملنا ثابت ہے اور جن امراء سے نفرت ثابت ہے - یہاں مناسب کے کہ صحبت کے متعلق ایک اصول عرض کیا جاوے جس کو راقم الحروف نے حضرت والا سے خود سنا ہے - امراء کی صحبت کے متعلق ضابطہ : راقم نے ایک مرتبہ حضرت ولا سے دریافت کیا کہ کس صحبت سے پرہیز چاہئے اور کس صحبت سے نہیں - فرمایا ضابطہ یہ ہے کہ انسان میں تاثیر اور تاثر کا مادہ بالطبع رکھا ہوا ہے - جو غالب ہوتا ہے وہ موثر اور جو مغلوب ہوتا ہے وہ متاثر ہوجاتا ہے - اپنے مذاق کے خلاف والے سے صحبت ہونے میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں - وہ غالب ہوگا یا مغلوب یا دونوں برابر - جب وہ مغلوب ہو تب اس کی صحبت سے کچھ بھی حرج نہیں اور اگر وہ غالب ہو تو کسی طرح درست نہیں اور اگر دونوں برابر ہوں تو بہتر اجتناب ہے اور اس غالبیت اور مغلوبیت کے