ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
جاوے تو ایسا ہی خوف پیدا ہونا چاہئے جیسے ریل کے آجانے کی خبر سنکر مسافر کو پیدا ہوجاتا ہے اور جب اطمینان ہوجاوے کہ ہمارے تحقیق صیحح تھی تو شکر خدا بجالانا چاہئے نہ کی کسی سے لڑنا بھڑنا - اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسئلہ کی تحقیق کے متعلق کسی سے گفتگو نہ کرنا چاہئے - تحقیق اور چیز ہے اور جدال اور : تحقیق کرنا اور بات ہے جنگ و جدل اور - اگر طرفین میں خوف خدا ہو اور دین کی اتنی بھی پرواہ ہو جتنی مسافر کو ریل مل جانے کی تو کبھی جنگ وجدل کی نوبت نہیں آسکتی - اختلاف آئمہ مجتہدین و صحابہ اسی طرح کا ہوتا تھا - ہر استفتیٰ کا جواب دینا ضروری نہیں : مفتی کو ہر سوال کے لئے فورا نہیں تیار ہوجانا چاہئے - علماء میں فی زمانہ رائج ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے اور اس کو اپنا فخر جانتے ہیں - عوام کے سامنے دقیق مسائل بیان کردینا ایسا ہے جیسا کہ بچہ کو روپیہ پیسہ اور قیمتی اسباب پر قبضہ دیدینا یا بچہ کے ہاتھ میں چھری چاقو دے دینا - یا سر بازار گاتے پھرنا کہ ہمارے پاس اتنا مال ہے یا کوئی پوچھے کہ آپ کا مال کہاں رکھا ہے اس کو بتادینا اور نہ بتانے کو جھوٹ سمجھنا - بعض لوگ اس حدیث کو پیش کیا کرتے ہیں - من سئل عن علم فکلتمہ الجم بلجام من النار یوم القیمۃ ( جس سے کوئی مسئلہ پوچھا جاوے اور وہ چھپاوے تو اس کو قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی - ) اس کا حل یہ ہے کہ جو شخص مسئلہ کسی فتنہ پر دازی کے لئے پوچھتا ہے سائل عن علم ہی نہیں ہے - بلکہ مجادل ہے اور جدال شیوہ جاہلان ہے - اسی کی نسبت قرآن شریف میں ہے واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلما ( اور جب ان سے جہلاء گفتگو کرتے ہیں تو وہ الوگ جو فضول بات سے الگ رہتے ہیں )والذین ھم عن اللغو معرضون ( اور وہ لوگ جو فضول بات سے الگ رہتے ہیں ) مفتی کو بہت تجربی کار اور فہیم ہونا چاہئے - فتویٰ دینا گویا امراض روحانی کا علاج کرنا ہے جب امراض جسمانی کا معالج بھی وہی ہوسکتا ہے جو تجربہ کار ہو تو امراض روحانی کا معالج نا تجربہ کار کیسے ہوسکتا ہے - جیسے بعضے علاج فی