ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ہی ہوجاتی ہے سب ادھر سے ہے - راوی کہتے ہیں کہ مجھ کو پھر شبہ ہوا کہ جب خالق ہر شئے کا خدا تعالیٰ ہے تو میرے دل میں جو یہ وسوسہ اعتراض پیدا ہوا تھا اس وسوسہ کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے پھر یہ اس کو کیوں دفع کر رہے ہیں ان کو یہ بھی منکشف ہوگیا فرمایا شرو کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا بے ادبی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا ہم بالکل برئ الذمہ ہیں ہم سے کچھ ہوتا ہی نہیں مضطر ہیں فاعل مختار نہیں - شرور کو اپنے نفس کی جانب منسوب کرنا چاہئے - حضرات شیخین کی شجاعت ( 70 ) بتاریخ مذکور - فرمایا حضرت محمد بن حنفیہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ کے صاحبزادہ ہیں - ان سے کسی شخص نے کہا کہ حضرت علی تم کو ہمیشہ محاربہ پر بھیجتے ہیں اور امام حسنین علہیما السلام کو اپنے پاس رکھتے ہیں - فرمایا میں تو ہاتھ پیر ہوں اور وہ آنکھیں ہیں اور ہاتھ پیر ہمیشہ آنکھ کا وقایہ ہوتا ہے - اور اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اہل تشیع کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ حضرت علی شیخین سے شجاعت میں زیادہ تھے - سو اول تو اس فضیلت جزنی سے ان کی فضیلت کلی میں کوئی قدح نہیں ہوسکتا - دوسرے شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمتہ نے اپنی ایک تصنیف میں ثابت کردیا ہے کہ شیخین زیادہ شجاع تھے اور اس کی ایک عجیب وغریب تقریر لکھی ہے میں نے آج تک کسی کتاب میں نہیں دیکھی - لکھتے ہیں شجاعت کہتے ہیں قوت قلب کو اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک شجاعت ملوک و سلاطین کی دوسری شجاعت کہتے ہیں قوت قلب کو اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک شجاعت ملوک و سلاطین کی دوسری شجاعت فتیان و مقاتلین کی - فوج کی شجاعت تویہ ہے کہ جان کو جان نہ سمجھیں ہر معرکہ میں ہر میدان جنگ میں ہر خندق میں بلا وسواس گھس جائیں سر ہتھیلی پر رکھ کر جان پر کھیل جائیں - اور امراء کی شجاعت یہ ہے کہ گو ایک مقام پر مستقر رہیں لیکن مستقل رہیں کسی حادثہ اور کسی واقعہ سے حیران و پریشان نہ ہوں - حوادث سے ماور انتظامیہ میں بد نظمی نہ ہونے دیں بدستور سابق تدابیر میں مشغول ہوں اور یہ شجاعت پہلی شجاعت سے اکمل وا قوی ہے اس میں تو صرف ایک ہی امر کے لئے آمادہ ہوجانا ہے اور اس میں بہت سنھلنا پڑتا ہے - پس حضرت علی میں شجاعت قسم اول تھی اور شیخیں میں قسم ثانی کہ وہ کبھی کسی وقت کسم مقام پر کسی حادثہ واقعہ سے