ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
( ان کا ذکر حکمت چہل و پنجم میں ہے ) بہت روئے اور ان کو اب تک بہت ندامت ہے - فرمایا ان کو خوب رونے دو تہذیب نفس اسی طرھ ہوگی - پھر فرمایا اگر میں خدمت سے منع نہ کروں گا تو میری بھی اور بعض علماء کی طرح خدمت ہونے لگے گی اور مجھے لوگ اپاہج اور بت بنادیں گے - میں نے واقعات اور رواجوں میں غور کر کے دیکھا ہے کہ اس قسم کے امور میں ڈھیل دینے کے یہی نتائج ہیں - علماء کی تعظیم سے لوگوں کا تو نفع ہے کہ انکی تعظیم درحقیقت دین کی تعظیم ہے مگر علماء اور علم کے لئے سخت مضر ہے - علماء میں تو اس سے نخوت اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے اس واسطے مضر ہوا اور جب ان میں یہ صفات رذیلہ لوگ دیکھتے ہیں تو نہ ان کی بات میں اثر رہتا ہے اور ان کی علم کی تعظیم لوگوں کے دلوں میں رہتی ہے - ان کے ساتھ علم بھی بدنام ہوجاتا ہے - علماؤکے برتاؤ عوام کے ساتھ : پھر ذکر فرمایا کہ ہم اعظم گڑھ گئے تو جو تعظیم علماء کی وہاں دیکھی کہیں بھی نہیں دیکھی اہل علم کو دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ ہنود بھی - میں ایک راستہ سے گزرا - درمیان میں سرکاری مدرسہ آیا تو مجھے دیکھ کر لڑکے اور مدرس سب کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ ہندو لڑکے اور مدرسین بھی - ان لوگوں کا یہ برتاؤ دیکھ کر گزرتا چلا جانا اچھا نہ معلوم ہوا - میں وہاں رکا اور ان سب سے ملا - لوگوں سے مصافحے کئے - میں مدرسین سے ایک ایک سے ملا حتیٰ کہ ہندوؤں سے بھی اور مزاج پرسی وغیرہ کی - بڑے خوش ہوئے اور ان پر بڑا اثر ہوا - مجھے تعجب تھا کہ اس قدر متاثر ہوئے - اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں علماء کا گزر اکثر رہتا ہے کیونکہ لوگ قدر کرتے ہیں مگر ان بندگان خدا کا طرز عمل یہ ہے کہ راستہ میں گزرتے ہیں لوگ ہندو اور مسلم ان کو سلام کرتے ہیں اور کھڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ کسی کا سلام نہیں لیتے نہ کسی سے بات کرتے ہیں - منہ چڑھائے ہوئے چلے جاتے ہیں اور اس کو اچھا سمجھتے ہیں کہ یہ علم کی شان ہے - ہر کس و نا کس سے بات کرنا علم کو ذلیل کرنا ہے حتیٰ کہ سنا کہ ایک غیر مذہب والے نے کسی مولوی کے وعظ میں بیٹھنا چاہا - مولوی صاحب نے ڈانٹ بتائی نکالو اس