ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
یہ اس طرح معلوم ہوا کہ مجھ سے بعض احباب نے بوستان کے دیباچہ کے بعض اشعار کی شرح کی فرمائش کی میں نے شرح لکھی لیکن قواعد فن پر منطبق کرنے میں بہت ہی تکلف ہوا گو طالب؎علمی کی کھینچ تان سے منطبق کردیا لیکن یہ معلوم ہوتا تھا کہ کچھ دیدہ ہے اور کچھ شنیدہ بالا بالابیان کرتے ہیں - البتہ علوم معاملہ میں امام مسلم ہیں - علوم مکاشفہ میں اول نمبر شیخ فرید الدین عطار اور محی الدین ابن العربی ہیں اور دو درجہ میں مولانا رومی اور سوم مرتبہ میں امام غزالی واللہ اعلم اللہ کا عرش پر مستوی ہونے کا مطلب ( 113 ) بتاریخ مذکور فرمایا تمام اہل حق قائل ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ متحیز متمکن نہیں پس فوق العرش ہونے کے جو مدلول ہے الرحمن علی العرش استویٰ کا ایک قریب معنی یہ ہیں کہ وہ کسی مکان میں متمکن نہیں کونکہ عرش منتہیٰ ہے امکنہ کا اور اس پر حکماء کا یہ قول بھی منطبق ہوسکتا ہے کہ فلک لافلاک محدو الجہات ہے پس جو شئے اس منتہی الامکنہ سے فوق ہو گی وہ ہر مکان سے خارج یعنی لامکانی اور غیر متحیز ہوگی اور یہ بھی ایک مطیف معنی ہیں - الرحمٰن علی العرش استویٰ کے یعنی وہ غیر محدود ہے اور مکان وغیرہ سے اس کی شان ارفع ہے نہ یہ کہ عرش اس کا مکان ہے اور عرش کے محدود مکان ہونے مضمون کے سلسلہ میں حکماء کے فلک الافلاک کو محدد زمان ماننے کے مضمون کی نسبت فرمایا کہ کود زمان کے وجود حقیقی کا قائل ہونا ہی لغو اور اتباع وہم ہے جس کی کوئی بھی دلیل نہیں متکلمین نے اس مسئلہ کو خوب صاف کردیا - وہ فرماتے ہیں کہ زمانہ ایک متداد مہوم کانام ہے - جو فرض فارض پر موقوف ہے باقی اگر کسی کو یہ اشکال ہو کہ جب زمانہ محض امر فرضی ہے تو جن چیزوں میں تقدم و تاخر زمانی ہے چاہیئے یہ کہ اگر ہم زمانہ کا وجود فرض نہ کریں تو ان میں تقدمو وتاخر بھی واقعی نہ ہو اس کا جواب یہ ہے کہ تقدم و تاخر واقعی کو اصطلاح میں تقدم وتاخر زمانی کہتے ہیں - ( ولا مشاحتفی الا صطلاح 12 جامع ) اور حقیقت اس تقدم تاخر کی یہ ہے کہ متقدم متاخر کے ساتھ مجتمع نہ ہوسکے خواہ زمانہ ہو یا نہ ہو جیسا خود اجزاءزمانہ میں تقدم و تاخر اس معنی کر ہے ورنہ لازم آوےگا کہ زنمہ کے لئے ایک زمانہ ہو - ھف