ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
لطائف کے بارے میں چشتیہ و نقشبندیہ کا موقف ( 114 ) بتاریخ مذکور - اثناء درس تکشف میں لفظ قلب صنوبری آیا - فرمایا قلب صنوبری تو خاص قطعہ لحم کا نام ہے اور اس کے مقابلہ میں قلب حقیقی ہے وہ ایک لطیفہ ہے اس کے انوار سے یہ صنوبری منور ہوتا ہے اسی طرح دوسرے لطائف کو خاص خاص مقامات سیک خصوصیت ہوتی ہے - جیسے سر کو سینہ سے اور خفی کو مابین الحاجبین سے اور اخفی کو دماغ سے اور وہ تعلق یہی ہے کہ مذکورہ اعضاء پر ان کے انوار و برکات ظاہر ہوتے ہیں - اور لطائف کی تعلیم کا نقشبندیوں کے یہاں خاص اہتمام ہے اور چشتی اس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں - چنانچہ حضرت حاجی صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہ سب حجاب ہیں ذکر کے وقت ان کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئے بلکہ توجہ اولا بجانب مذکور مصروف کرنا چاہئے اگر اس میں تکلیف ہو تو ثنیا ذکر کی جانب ملتفت ہوں اگر وہ بھی جمے تو ثالثا صرف قلب کی طرف توجہ کرے - حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں الا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب اس میں صاف مضغہ قلب کی تصریح ہے گو اس کے ضمن میں تبعا لطیفہ قلب کی طرف بھی توجہ آگئی پھر دوسرے لطائف کی کیا حاجت رہی کہ پہلے یہ کرو پھر وہ کرو پھر مجموعہ کو ملاؤ اور مسلم ہے کہ النفس لا تتوجہ الی سیئین فی ان واحد پس نہ اس ہی لطیفہ میں کمال توجہ ہوتی ہے نہ دوسرے لطیفہ میں ہوتی ہے اور مشق شدہ لطیفہ میں جب کم توجہی محسوس کرتے ہیں پھر نئے لطیفہ کو چھوڑ کر اس پہلے میں لگتے ہیں غرض یہی شغل قصاری المقصود ہوجاتا ہے اس لئے اس کو حجاب کہا گیا اور ایک اصطلاحی دوائر ہے - یہ مقامات کا نام دوائر رکھا ہے کیفیات باطنیہ کو دوائر تعبیر کرتے ہیں مثلا دائرہ محبت وغیرہ اور ان دوائر کے مراقبہ کی تعلیم کرتے ہیں اور ایک اصطلاح حقائق ہے جیسے حقیقت صلوٰۃ اور حقیقت کعبہ وغیرہ اس کا تصور کرایا جاتا ہے - ہمارے حضرت ان سب کو حجابات فرماتے تھے اور اس خلتاف مسالک نقشبندیہ و چشتیہ کے سلسلہ میں فرمایا کہ وہ حضرات عامہ خلائق سے از حد متنفر رہتے ہیں کیونکہ اختلاط مع الانام