ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
سمجھے - چبھیلی چھ بلی رنگیلی رنگین رسیلی رسلی لی - حاصل یہ ہے کہ غیر اہل ابان کا اہل لسان کی طرح کلام کو سمجھنا امکان عادی سے خارج ہے - ایک ایرانی شخص تھا وہ شیخ سعدی کے اس کلام کو در عنفوان جوانی چنانچکہ افتدد و دانی نظر داشتم بروئے و گز رواشتم درکوے - سنکر رقص کیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ممتنع النظیر ہے - اب اس میں قواعد سے کیا دہرا ہے لیکن ایک ذوق ہے جو اس کو مجبور کرتا تھا وہ کسی اور دوسرے کو حاصل نہیں - علوم کا شفہ کی تحقیقات کی حیثیت : ( 17 ) بتاریخ مذکور : فرمایا کہ تحقیق مسائل تصوف متعلقہ علوم مکاشفہ میں وقت نہ کھونا چاہئے اس سے معتد بہ نفع نہیں اس کا ایک قاعدہ بتلاتا ہوں کہ ان مسائل کی تحقیق کے بعد سوچ کر دیکھنا چاہئے کہ وجدان سے لچھ قرب الہٰی بڑھا ہوا معلوم ہوا یا نہیں بلکہ تعجب نہیں کہ بعض اوقات قرب میں کمی ہوگئی ہو بخلاف الحمد الہ سبحان اللہ وغیرہ کے ایک بار کہنے کے بھی کہ اس سے فورا ترقی محسوس ہوتی ہے پس معلوم ہوا کہ یہ تحقیات ذلر لسانی سے بھی کم ہیں لیکن اس زمانہ میں اس کو اختیار اس وجہ کیا جاتا ہے کہ اس میں ایک شان امتیاازی ظاہر ہوتی ہے کہ ان صاحب کو ایسے مسائل ہیں جو کو اور لوگ نہیں جانتے - اگریہ یہ تحقیق بعد میں اس نیت امتیاز سے عذاب جان و آفت ہوجائے - البتہ علوم معاملہ ضرور فائدہ متصور ہے مگر مبالغہ اس میں بھی پسند نہیں - قرآن کریم کا انداز مشفقانہ ہے مخاصمانہ نہیں ( 18 ) بتاریخ مذلور فرمایا جو شفیق ہوتا ہے وہ محض ضابطہ کے دلائل واستدلا سے کام نہیں لیتا - اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سمجھ میں آجائے - البتہ جہاں پر ساکت ہی کرنا مقصود ہوتا ہے وہاں محض دلائل و براہین قائم کئے جاتے ہیں اسی سے قرآن مجید کی شفقت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مضمون کو مکرر رسہ کرر کئی کئی جگہ بیان کیا اور ان میں سے اکثر مقامات پر دلائل چھوڑ دئے کیونکہ تفہیم مقصود ہے اسکا مطلوب نہیں -