ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
جاؤ - حضرت مولانا گنگوہی کے یہاں ایک طالب علم اس کی کوشش کر رہے تھے بعض فرق مبتدعہ پر کفر کا فتویٰ لگادیا جاوے حضرت ان ان کو خاموش کردیا اور پھر فرمایا کہ خیر دھمکا نے کے واسطے کبھی کہہ دو تو کچھ حرج نہیں - اس کے بعد صاحب ملفوظات نے فرمایا انکار للمخالفہ اور انکار للمصلحتہ میں لب ولہجہ و انداز چ طریفہ ادا ہی فرق بین معلوم ہوجاتا ہے مصلحت میں الفاظ سخت و حشن استعمال کرتے بلکہ نرم کلمات اور عبارات سے سمجھاتے ہیں بخلاف اعتراض و مخالفت کے پھر فرمایا کہ صاحب حال پر انکار کرنے سے ضرر گناہ کا تو نہیں پہنچتا لیکن اس کے فیوض و برکات سے محرومی ہوتی ہے چنانچہ میانجی صاحب قدس سرہ کے پاس ایک عالم شخص نے آکر بیعت کی جو پہلے کسی وقت میں میاں جی صاحب کی شان میں گستاخی کرتے رہے تھے مگر ان کو کچھ نفع نہیں ہوا - میاں جی صاحب نے ایک بار ان سے فرمایا کہ ہر چند میں تمہاری طرف متوجہ ہو کر نفع پہنچانا چاہتا ہوں لیکن وہ تمہارے پرانے کلمات درماین مین آکر حجاب ہوجاتے ہیں اس لئے میں مبجور ہوں تم کو مجھ سے نفع نہ ہوگا لہذا تم کو کسی دوسرے مقام سے نفع حاصل کرنا چاہیئے - پھر فرمایا کہ اسی طرح جو شخص اپنے زمانہ کے قطب الارشاد کی مخالفت کرے گا اس کو دوسرے شیخ سے بھی کبھی فائدہ نہ ہوگا - استاد شاگرد اور پیر ومرید کے تعلق میں فرق ( 107 ) بتاریخ مذکور - فرمایا کہ تلامذہ واساتذہ میں اگر طبیعت میں سلامت ہو محبت زیادہ ہوتی ہے - بہ نسبت مشائخ و مریدین کے - تلامذہ بالکل مثل اولاد کے ہوجاتے ہیں - اس لئے استاد کی محبت کسی حال میں تلمیذ کے قلب سے جاتی - بخلاف مرید کے کہ اس کہ ارادت کا تعلق محض بزرگی جے خیال پر ہے - اگر کبھی حقیقت منکشف ہوجاوے کہ یہ بزرگ نہیں یا خیال ہی بدل جاوے سب محبت ہوا ہوجائے اور شاگرد کی محبت کی بناۓ نفع علمی ہے اور وہ ہر حال میں باقی ہے اس لئے اس کے تعلق کا ازالہ ممکن نہیں پھر فرمایا کہ میں اپنے معائب کا مریدین پر ظاہر ہونے کو گوارا نہیں کرتا اور شاگردوں سے پوشیدہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا - مریدین سے توگاہ گاہ ریاء بھی کرنے کا اتفاق ہوجاتا ہے گو وہ ان کے حق میں بہتر ہو ( کما قال حاجی