ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
کے بعد صفوں سے پیچھے ہٹ کر حسب معمول ایک مصلے پر سنتوں کی نیت باندھتے تھے کہ ایک شخص نے درخواست کی کہ ایک تعویز کی سخت ضرورت ہے - ( شاید دردزہ کے واسطے ضرورت تھی ) حضرت والا نے ترحما فورا تعویز لکھنے کے لئے ایک لڑکے سے فرمایا - قلمدان لے آؤ - وہ قلمدان لے آیا - وہ مولوی صاحب کھڑے ہوئے پنکھا جھل رہے تھے - اس وقت کسی قدر اندھیرا ہوگیا تھا - مولوی صاحب نے عرض کیا کہ چراغ لے آؤں - فرمایا نہیں اور تعویز لکھنا شروع کیا - بوجہ اندھیرے کے قدرے وقت ہوئی - مولوی صاحب نے پھر عرض کیا چراغ لے آؤں - بس حضرت والا نے تعویز ہاتھ سے رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے قصدا بلا روشنی کے لکھنا شروع کیا تھا کہ دیکھوں آپ کیا کرتے ہیں مگر آپ کو ایک دفعہ کہنے پر بھی صبر نہ ہوا اور جو بات طبیعت میں ہے وہ ظاہر ہوئی ہے - آپ کی طبیعت میں امارت ہے اور میری طبیعت میں امارت سے نفرت ہے - ابھیا اتنا اندھیرا نہیں ہے کہ لکھا نہ جاسکے ذرا کلفتت سے سہی - یہ امارت ہے کہ شام ہوئی اور لالٹین روشن ہوئیں - ذرا گرمی ہوئی پنکھا شروع ہوا - میں پیخانہ میں بھی ہر وقت روشنی نہیں لے جاتا ہوں حالانکہ وہاں ضرورت ہے - میں اسکو بھی امارت ہی کی شان سمجھتا ہوں کہ پیخانہ کا وقت آیا لالٹین رکھو اور پانی رکھو خوب سمجھ لیجئے کہ بندہ وہ ہے جو بندوں کی طرح رہے اور ترفع اور بناوٹ چیز کیا ہے - سوائے اسکے دھوکہ اور وہم وخیال ہے - بندہ جب تک زندہ ہے جب تک تو شان بنانی ہی نہیں چاہئے - کیا خبر کیا حالت ہونے والی ہے - ہاں جب دنیا سے ایمان صیحح و سالم لے کر نکل جاوے تو پھر اینبھٹے جتنا چاہے - حضرت والا کا سفر ڈھاکہ تیسرے درجہ میں : مجھ کو نواب صاحب ڈھاکہ نے بلایا اور صرف سفر خرچ کے سو روپے بھیجے - میں نے تیسرے درجہ میں سفر کیا جب وہاں پہنچا تو صرف چالیس روپے خرچ ہوئے تھے - باقی واپسی کے لئے رکھے - نواب صاحب نے واپسی کے لئے خرچ دینا چاہا کیونکہ ان کو یہ یقین نہیں آیا کہ کل اتنا ہی خرچ ہوا ہے - میں نے مفصل حساب لکھ کر دکھلادیا اور وجہ اس کمی کی یہ تھی کہ میں