ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ہوتی تھی کہ وہ ذکر میں تالیاں بجانے لگتے تھے اور تالیا بجانا بھی سماع کے قریب قریب ہے کیونکہ لہو میں داخل ہے - مگر حضرت نے کوئی نکیر نہیں فرمائی - مولانا محمد حسن صاحب مدار آبادی حضرت کے یہاں بہت کھلے ہوئے تھے حضرت ان سے بہت محبت کرتے تھے - انہوں نے ایک دن عرض کیا کہ حضرت اب تو آپ کے یہان تالیاں بجنے لگی ہیں حضرت نے ان کو ڈانٹ دیا کہ تم کیا جانو خاموش رہو - ایک موقع تو یہ تھا اب اس کی ضد بھی سنئے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی کی مجلس میں جوش میں کسی نے یہ شعر پڑھ دیا - من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری حضرت نے فرمایا کہ اگر اس کے بعد اس قسم کی کوئی بات کی تو کان پکڑ کے باہر نکلوا دوں گا خاموش بیٹھے رہو - حضرت سے فراست سے سمجھ لیا تھا کہ یہ شخص ایسا مغلوب نہیں تھا - اگر ضبط کرنا چاہتا ضبط کرسکتا تھا - اور تالیاں بجانے والوں کو حضرت معذور سمجھتے تھے کیونکہ وہ ظبط پر قادر نہ تھے - مزامیر کے ساتھ سماع سب کے ہاں حرام ہے غرض مزامیر کے ساتھ سماع کو قریب قریب سب صوفیہ نے حرام کہا ہے البتہ بعض نے اس کی بھی اجازت دی ہے اور علامہ شامی نے ان پر سے اعتراض کو اس طرح رفع کیا ہے کہ فقہاء نے تین وقتوں میں طبل بجانے کی اجازت دی ہے جیسا کہ امرا کے یہاں تین مختلف اوقات میں نوبت بجتی ہے - اور یہ حکمت بیان کی گئی ہے کہ اس میں ننفخات ثلثہ کی تذکیر ہے - علامہ شامی لکھتے ہیں کہ جب تذکیر نفخات کے لئے طبل کی اجازت ہے تو جو حضرات صوفیہ اس قسم کے مصالح سے آلات کی اجازت دینے ہیں ان پر بھی اعتراض نہ کرنا چاہئے - اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اگر کسی صاحب سماع کی نظر سے یہ عبارت گزر جائے تو وہ تو آسمان سر پر اٹھالے - اور اس کو قوالی کی سندھ بنالے - مگر یہ علامہ شامی کی رائے ہے اور وہ