ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
دیکھے یہ معلوم ہوا کہ مولانا ابو الخیر صاحب نے مصلیٰ پر جاتے ہی فرمایا کہ میری جماعت والوں کے سوا جو اور لوگ ہوں وہ علحیدہ ہوجائیں - یہ دن کر میں نے اس وقت حافظ صاحب سے کہا کہ دیکھئے ایسے ہی احتمالات سے میں نے آپ کو روکا تھا - اگر آپ جاتے تو یہی الفاظ آپ کو بھی سننا پڑتے - اس واقعہ کو بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہ محقق اور کامل نہ ہونے کی علامت تھی - مگر پھر بھی مولانا بہت غنیمت تھے اب تو ایسے لوگ بھی نہیں - ان کے معتقدین و مریدن زیادہ تر کاہلی تھے جو بڑے خوش عقیدہ اور راسخ تھے یہاں تک کہ مولانا ان کو سخت سخت سزائیں دیتے تھے اور وہ دم نہیں مارتے تھے - مولانا کا طریقہ مخدومانہ تھا - مولانا ابو الخیر دھلوی اور ہمارے اکابر میں فرق : اسی جلسہ میں اپنی جماعت کے لئے یہ بھی فرمایا تھا کہ جن خادموں کو وضو نہ ہو وضو کر لیں اور ہمارے بزرگوں کی دوسری شان تھی وہاں عجز تھا انکسار تھا - بھلا ممکن تھا کہ وہ اپنے معتقدین یا متوسلین کو خادم کہہ کر پکارتے وہ تو اپنے خادموں کو مخدوم سمجھتے تھے - وہ اتباع رسول میں فناء تھے ان کا اخلاق وہ تھا جو ہمارے رسول کا تھا - وہ محقق تھے وہ کامل تھے ان کی شان کمال یہ تھی کہ کسی کو حقیر سمجھتے تھے - غیر کامل کی مثال ایک دھند لے چراغ کی سی ہے جہاں دھواں ہوا اس کا نور چھپ گیا - اور ہمارے بزرگ محقق و کامل تھے ان کے انوار مثل تیز روشنی کی قندیل کے تھے - کہ اگر ہزاروں ظلمات ان کے سامنے جمع ہوں ان سب پر وہی غالب رہے ایسے کامل کو حق ہے اصلاح کا جس کے صفات کی نسبت حضرت محی الدین ابن عربی کا ارشاد ہے کہ عربی وہ ہے جس میں یہ تین صفتیں موجود ہوں - دین انبیاء کا ساہو - تدبیر اطباٰ کی سی ہو - اور سیاست بادشاہوں کی سی - یہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مولوی عبدالمجید نے مجھ سے پوچھا تھا کہ انبیاء کا سادین کسی کا ہوسکتا ہے میں نے جواب دیا تھا کہ مراد یہ ہے کہ انبیاء کا دین جس طرح دینوی اغراض سے پاک ہوتا ہے اور یہ مراد نہیں کہ ایسا کامل ہو -