ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
لہذا اسلم طریقہ انما شفاء العی السوال ہے - نتیجہ یہ ہے کہ اس علاج سے کوئی یہ نہ اخذ کرے کہ امراض کی طرف سے بے فکری میں کچھ حرج نہیں - جیسا کہ بعض جاہلوں سے دیکھا گیا کہ کسی کتاب میں اس قسم کے قصے دیکھ کر انہوں نے اسی پر کفایت کر لی کہ ہم میں ہزار عیب ہیں مگر ہماری فکر سے کیا ہوتا ہے - فکر سے صرف دل کو پریشان کرنا ہے - خدا سب دور کریے گا - اصل یہ ہے کہ علاج یعنی قطع نظر عن المرض و علاج المرض اس کا علاج ہے جو حد سے زیادہ خائف ہو کر ایسا پریشان ہوگیا ہو کہ یاس اور ترک عمل کی نوبت آگئی ہو اور اس کی اصل یہ ہے کہ خوف اس قدر مقصود ہے کہ باعث امتناع عن المعاصی ھو بد لیل اما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی و بدلیل حدیث و من خشیتک ما تحول بہ بیتنا و بین معاصیک او کما قال علیہ السلام ترجمہ اور سوال کرتا ہوں میں خوف میں سے وہ مقدار کہ معاصی سے عاجز ہو جاوے اور جب خوف اس حد سے متجاوز ہو جاوے تو خود ذریعہ معصیت ہوگیا اور معصیت ہی کی طرح مذموم ہو گیا - اس صورت میں یہ علاج کار آمد بلکہ موقوف علیہ صحت اور فاضل ترین معالجات ہے نہ ایسے لوگوں کے لئے جو نفس کو گنجائش دینے کے لئے اس سے کام لیں - وظیفوں کو اعمال اختیاریہ میں کچھ دخل نہیں : اور یہ ہدایت بھی کہ وظیفوں کے بھروسے نہ رہیں عام ہے - وظیفوں کو اعمال اختیاریہ تکلیفیہ میں سوائے برکت کے دخل فی الجملہ بھی نہیں - صرف کم ہمتی ہے اسی واسطے عورتیں اس میں بہت سغف رکھتی ہیں - بس اتنا دخل ہوسکتا دوا پر صرف اقبال طبع کے لئے قند چڑھا دینا - واللہ واعلم - قولہ دعا سے یقینا اثر ہوتا ہے یعنی علاج میں سہولت کے ذرائع پیدا ہوجانا اور اسباب کا مفضی لے المسبب ہو جانا نہ کہ بلا اسباب مسبب کا موجود ہو جانا کما فصل آنفا یعنی دعا معین فی العلاج ہونے کی وجہ سے علاج کے اثر کو تیز کر دیتی ہے - ہمت اور صرف طبیعت الی شغل آخر سے علاج کیجئے اور ان کا اثر عاجل اور کامل ہونے کے لئے دعا کو بھی شامل رکھے -