ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
تھی - وہاں سے بھی میں ان کو واپس لے آیا - تیسری بار جب وجد ہوا ہے تو فوق العرش پہنچ گئے - میں نے وہاں سے بھی واپس لانا چاہا تو حامالان عرش نے مجھ کو روک دیا کہ آگے تمہارا مقام نہیں یہ نظام الدین ہی کا مقام ہے - وہی فوق العرش جاسکتے ہیں اس وقت حاملان عرش کے ادب سے میں نے ہاتھ باندھ لئے تھے نہ کہ بدعتی کی تعظیم کے لئے - واقعی انتظام اسی کا نام ہے - باوجود سلطان جی کے مقام سے واقف ہونے کے ان کے جس فعل کو وہ بدعت سمجھتے تھے برابر اس پر انکار کرتے رہے - قاضی ضیاءا لدین کی وفات کے وقت حضرت نظام الدین کی ملاقات پھر قاضی صاحب کی وفات کا وقت جب قریب آیا اور حضرت سلطان جی کو اس کا علم ہوا تو عیادت کے لئے تشریف لے گئے - خادم نے قاضی صاحب کو سلطان جی کے تشریف لانے کی اطلاع دی - فرمایا ان سے کہہ دو کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کا وقت ہے اس وقت میں بدعتی سے ملنا نہیں چاہتا - سلطان جی نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں ایسا بے ادب نہیں ہوں کہ بدعت میں ملوث ہو کر آپ کے پاس آؤں میں اس سے توبہ کر کے آیا ہوں - والتائب من النذنب کمن لا ذنب لہ یہ جواب سن کر حضرت قاضی صاحب آبدیدہ ہو گئے - اور اپنا عمامہ خدام کو دیکر فرمایا کہ اس کو بچھا دو اور سلطان جی سے عرض کرو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لائیں - میں ان کے مقام سے واقف ہوں - ان میں ایک ہی کسر تھی جب وہ نہیں رہی تو اب وہ اس قابل ہیں کہ میرے عمامہ پر قدم رکھتے ہوئے تشریف لائیں - خدام نے حکم کی تعمیل کی اور عماد زمین بچھا دیا - حضرت سلطان جی نے وہ عمامہ اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا اور فرمایا یہ دستار شریعت ہے اس پر میں قدم رکھوں میری کیا مجال ہے - اس کو تو میں سر پر رکھوں گا - چنانچہ سر پر رکھے ہوئے تشریف لائے - قاضی صاحب نے بڑی تعظیم و تکریم سے بٹھایا اور عرض کیا کہ حضرت اب میرا اخر وقت ہے توجہ فرمایئے کہ خاتمہ ایمان پر ہو - سلطان جی یہ سن کر دیر تک متوجہ رہے اور رخصت ہو کر دہلیز تک پہنچے