ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
معیت بالرسول علیہ السلام کے دوام ہونے کے کیا معنی - رہی دوسری بات کہ حضرت شیخ کے حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک میں برسوں رہنے یعنی اس کو دوام نہ ہونے اور ایسے ہی حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو صرف شروع حدیث کے وقت حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معیت محسوس ہونے کے کیا معنی - کیا بعد میں یہ حالت سلب ہوگئی ہو اس کا بیان یہ ہے کہ یہ حالت بعد میں سلب نہیں ہوئی بکلہ احساس اسکا جاتا رہا کیونکہ اساس امر جدید کا ہوا کرتا ہے اور چیز داخل طبیعت ہوجاتی ہے اس کا حساس نہیں رہتا - حضرت والا سے بعض خدام نے پوچھا کہ جو لذت اور آثار اور انوار ذکر سے شروع میں محسوس ہوتے وہ اب نہیں رہے - معلوم ہوتا ہے رجعت ہوگئی - فرمایا حاشا وکلا انوار و برکات و آثار ویسے ہی ہیں بلکہ اس سے زیادہ ہیں ہاں احساس جاتا رہا - پہلے شوق تھا اب انس ہوگیا اس کا تجربہ یوں ہوسکتا ہے کہ دو چار دن چھوڑ کر دیکھو اس سے زیادہ ظلمت اور رنج محسوس ہوگا جتنا ذکر شروع کرنے سے پہلے تھا - اور فرمایا اسکی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نئی شادی کرے تو اس کو شوق اور میلان اور اس کے متعلق جملہ آثار بہت زیادہ محسوس ہونگے اور دس برس کے بعد ان آثار میں بہت کمی ہو جاوے گی ( ہندی مثل ہے پرانی جورو اماں کی برابر ) حتیٰ کہ میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہوگا مگر حقیقت اس کی یہ نہیں ہے کہ محبت کم ہوگئی بلکہ محبت داخل عادت ہوگئی - احساس نہیں رہا - اس کا امتحان یوں ہوتا ہے کہ نئی بہو مر جاوے تو اتنا صدہ نہ ہوگا اور پرانی مرجاوے تو گویا خانوند کو بھی مار ہی جاتی ہے - اس تقریر سے صاف ظاہر ہوگیا کہ حضرت شیخ قدس سرہ کی اور حضرت والا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی دونوں حالتیں کبھی زائل نہیں ہوئیں بلکہ امر طبعی بن گئییں - یہاں سے ان لوگوں کی فضیلت نکلتی ہے جنہوں نے حضرت شیخ کو دیکھا گویا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور جنہوں نے مولانا رحمتہ اللہ علیہ سے حدیث پڑھی انہوں نے گویا خود حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھی - اللھم اجعلنا من خدا مھم وارزقنا من برکاتھم مجلس پنجا ہم ( 50 ) راقم نے عرض کیا کہ وہ طالب علم جن کو جناب نے امارت مزاج پر کل تنبیہ فرمائی