ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
بہت رنج ہے فرمایا میں تو آب بھی تمہاری طرف اسی طرھ متوجہ ہوں جیسا زندگی میں متوجہ تھا - اس کے بعد کبھی وعظ میں رکاوٹ نہیں ہوئی - پھر ہم سراج الواعظین مشہور ہوگئے - مقدمہ بازی کے باوجود شفقت و عقیدت : اسی سلسلہ میں ایک واقعہ بیان فرمایا کہ مولانا شیخ محمد صاحب زمنیداری کے معاملات میں والد صاحب کی مقدہ بازی رہتی تھی - مگر مولانا نے اس کا اثر میرے متعلق کبھی نہیں لیا - میرے ساتھ بہت محبت و شفقت فرماتے تھے - اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے بعد یہ لڑکا ہوگا - کبھی یہ خیال نہ فرمایا کہ یہ میرے مخالف کا لڑکا ہے - میں اس کی تعریف کیوں کروں یا اس سے شفقت کیساتھ کیوں پیش آؤں - اور والد صاحب کی بھی یہ حالت تھی کہ باوجود مقدمہ بازی کے ان کے دل میں بھی مولانا سے عقیدت تھی - ایک دفعہ میرٹھ سے پان لائے تو ان کا دل چاہا کہ مولانا کی خدمت میں بیجھوں - مگر خود بھیجنے میں یہ اندیشہ تھا کہ قبول نہ فرمائیں گے - اس لئے مجھے واسطہ بنایا کہ تم یہ پان مولانا کی خدمت میں لے جاؤ چنانچہ میں لی گیا - دو پہر کا وقت تھا دروازہ بند تھا میں نے جاکر پکارنا شروع کیا - مولوی صاحب مولوی صاحب اس وقت مولانا صاحب وغیرہ جیسے تکلف کے الفاظ کا رواج ہماری جماعت میں نہ تھا - نہ آپ اور جناب کا دستور تھا - بڑوں کو بزرگوں کو تم سے خطاب کرتے تھے - غرض دروازہ کھلا اور مولانا تشریف لائے چونکہ آرام کا وقت تھا اس لئے کرتہ بدن پر نہ تھا - رومال اوڑھے ہوئے تھے - میں نے پان پیش کئے کہ والد صاحب نے یہ آپ کے لئے بھیجے ہیں - مولانا کچھ دیر تو متامل رہے کہ اگر لیتا ہوں تو ایسے شخص کا ہدیہ ہے جس سے مقدمہ بازی ہے - اس کو کیسے لوں اور اگر نہیں لیتا تو دل شکنی ایسے شخص کی ہے جس سے کوئی مقدمہ نہیں پھر آپ نے وہ پان لے گئے - واپس نہیں فرمائے ادھر والد صاحب منتظر تھے کہ مولانا قبول فرماتے ہیں یا در کردیتے ہیں - جب میں نے آکر اطلاع دی کہ مولانا نے قبول فرمالئے تو بہت خوش ہوئے یہ تھا ہمارا پلا وعظ جس کے بعد صدہا وعظ کہے - بزرگوں کی مشقت حقیقت یہ ہے مجھے تو میرے بزرگوں نے واعظ بنادیا - حضرت مولانا محمود حسن