ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
فلا یدر علیہ والذین ھم عن اللغو معرضون خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کے ساتھ مزاح فرمانے اور معمولی لوگوں سے خلا ملا رکھنے میں یہی حکمت تھی جیسا کہ آگے مجلس سی ویکم میں آتا ہے - ہاں بلا ضرورت اور بے موقع ایسی زائد از کار باتیں نہ چاہئیں - چنانچہ حضرت والا کو کبھی اخبار قصون اور غیر ضروری باتوں کی ابتداء کرتے ہوئے نہیں دیکھا - مجلس پانزدھم ( 15 ) اپنے اوپر اور اپنوں پر شدت اور غیروں پر نرمی : فرمایا ہمارے حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا طریقہ تو یہ تھا کہ اگر فعل مباح فی نفسہ اور مفاسد عارضہ سے ممنوع الغیرہ ہو تو اس کی اجازت دیتے تھے اور عوارض سے منع فرمادیتے تھے اور یہ طریقہ اکثر صوفیہ کا ہے اور ہمارے علماء کا طریقہ وہ ہے جو فقہاء کا مذہب ہے کہ اس صورت میں نفس فعل ہی سے منع کردیتے ہیں جبکہ وہ مطلوب شرعی نہ ہو - میرا طریقہ فتوے میں تو فقہاء کا ہے اور فاعل پر تشدد اور غیظ کرنے میں صوفیہ کا ہے بشرطیکہ وہ فاعل خواص میں سے ہو - مجھ کو لوگ متشدد کہتے ہیں مگر تحقیق نہیں کرتے - میں عوام کو ان باتوں میں برا تک نہیں کہتا - غیبت ان کی جائز نہیں سمجھتا ظاہرا ان کو گنجائش نہیں دیتا ہوں مگر در حقیقت ان کا اتنا مخالف بھی نہیں جتنا سمجھتے ہیں ہاں اپنے خاص لوگوں کو مثلا جو لوگ مجھ سے بیعت ہوچکے ہیں ان کے ساتھ سرا اور علانیتہ ہر طرح میر اوہی مذہب ہے جو فقہا ء کا ہے میں اپنے نفس پر اور اپنے خاص لوگوں شدید ہوں اور غیروں پر نہایت درجہ نرم ہوں - 25 شوال 32 ھ بعد عصر روز پنجشہ یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر مقیم مقتدی ہو اور مسافر امام تو امام کی نماذ ختم ہونے کے بعد مقتدی اپنی نماز میں قراءت نہ کرے - صرف بقدر فاتحہ کھڑے ہو کر یا اس سے بھی صرف تین تسبیح کی مقدار کھڑا رہ کر رکوع کرے اور اگر الحمد فقط یا سورت بھی پڑھ لی تو اگر سہوا ہے تو نہ گناہ ہوا ہو سجدہ سہو اور اگر عمدا پڑھا تواحناف کے نزدیک گناہ ہوا - سجدہ سہو نہیں ہے -