ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
افراط فی التقویٰ موجب ترک تقویٰ ہے : واعظوں کی زبانی یا کتابوں میں بعض متورعین کے قصے سن لیتے ہیں کہ کسی کے کھیت میں دوسرے کا بیل آگھسا تھا تو انہوں نے اس خیال سے کہ اس کے گھر میں دوسرے کھیت کی مٹی تھی وہ میرے کھیت کے نا معلوم کس دانہ کا جزو بن گئی ہو اپنے کھیت کا اناج بھی چھوڑ دیا - ان سے نتیجہ یہ نکال لیتے ہیں کہ مال حلال نصیب ہو ہی نہیں سکتا - آب جواز سرگزشت چہ یک نیز چہ یک دست جیسا ملجاوے کھا لینا چاہئے - گنہگار بہر حال رہیں گے - اول تو ان قصوں کی اصلیت نہیں - دوسرے یہ ایسا ہے جیسے کوئی بیمار کسی بہت تندرست اور خوبصورت کو دیکھ کر کہے کہ ہم ایسے تو ہونے سے رہے پھر دوا اور پر ہیز سے کیا فائدہ جو سامنے آجاوے کھالو حتیٰ کہ سنکھیا بھی سہی - مگر ایسا کہیں دیکھا نہیں جس کو سو مرض ہیں وہ اس سے بھی کوتاہی نہیں کرتا کہ سو میں سے ایک ہی کم ہو جاوے - جس کو فقہ حلال کہے حلال ہے : حضرت والا کے متعدد واعظوں میں بیان ہوا ہے کہ یاد رکھو کہ جس کو ابواب فقہ میں حلال کہا گیا ہے وہ حلال ہے - زیادہ ہوس میں مت پڑو - جیسے پیٹ سے زیادہ کھا لینے سے ہیضہ ہوجاتا ہے ایسے ہی بساط سے زیادہ ہوس کرنے سے رہا سہا بھی تقویٰ جاتا رہتا ہے - ابواب فقہ کی پابندی جس کو احیاء العلوم میں ورع عدول کیا ہے ہر شخص کے ذمہ ضرور ہے اور اس سے زیادہ ہوس کرنا آج کل ذرا تامل کے ساتھ چاہئے اور ورع عدول نہایت درجہ آسان ہے تو ملا حلال کا ملنا کچھ بھی مشکل نہیں - مسئلہ کو علماء سے پوچھ لیں اور بے خطر عمل کریں - راقم کے نزدیک آج کل روع عدول سے آگے بڑھنے سے کے لئے سب سے بے خطریہ ہے کہ شیخ کامل سے مشورہ کر لے ورنہ بعض وقت تقویٰ زیادہ بگھارنے ورع عدول بھی کھویا جاتا ہے طبیعت ضعیف ہوتی تنگی کی برداشت نہ ہوئی اور کاد الفقران یکون کفرا ( ترجمہ قریب ہے احتیاج کہ کفر ہو جاوے 12 ) کا مصداق ہو جاتا ہے اور طبیعت کا ضعف و قوت خود کو معلوم ہونا مشکل ہے - یہ شیخ کامل کا کام ہے راقم کا یہ مطلب