ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
بشنواز نے چون حکایت می کند کے ظاہر پر ان کا عمل ہے - انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے عرض کیا کہ نے بجانے میں جو کمال میں نے حاصل کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ برکت کے واسطے حضرت کے سامنے اسے پیش کروں - اب حضرت اگر بالکل انکار فرماتے ہیں تو ان کی دل شکنی ہوتی ہے اور اہل سماع صوفیہ پر انکار لازم آتا ہے اور سنتے ہیں تو اپنے طریقہ کی مخالفت لازم آتی ہے - آپ نے ان دونوں پہلوؤں کو کس طرح سنبھالا فرمایا بھائی مجھے تو اس فن سے ذرا بھی مناسبت نہیں - ایسے شخص کو سنا کر اپنے فن کی کیوں بے قدری کی کسی قدر دان کو سنایئے جو اس فن سے واقف ہو اور کمال کی داد دے سکے - مولانا محمد حسین الٰہ آبادی اور ان کا قوال پھر ارشاد فرمایا ہاں ہمارے مولوی محمد حسین صاحب الٰہ آبادی ہوتے تو وہ آپ کے کمال کی قدر کرتے - حضرت کے ارشادات متون ہوتے تھے جو شرح کے محتاج تھے - چنانچہ اس ارشاد کو کسی نے مولانا محمد حسین صاحب کی تعریف اور عذل پر محموم کیا اور بعض نے یہ سمجھا کہ حضرت نے ان پر تعریض کی ہے کہ وہ ہمارے طریقہ سے جدا دوسرے طریقہ پر ہیں - اس بیان کے بعد ارشاد فرمایا کہ مولانا محمد حسین صاحب آلٰہ آبادی کا قوال فرزند علی ایک مرتبہ مجھے ریل میں مل گیا - وہ صرف قوال ہی نہ تھا بلکہ نماز روزہ اور ذکر و شغل کا پابند تھا - جس وقت مجھ سے ریل میں ملا ہے تو بوڑھا ہوچکا تھا کہنے لگا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ حضور کو کچھ سناؤں - چونکہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا مزامر وغیرہ کچھ نہ تھے - صرف سماع ہی سماع تھا اور قوال بھی تھا کس کا مولانا کا - میں نے اجازت دے دی - اس نے ایک غزل سنائی گو ریل چل رہی تھی اور اس کی گہڑ گہڑ کی آواز کا نون کو پریشان کر رہی تھی مگر اس کی آواز غالب تھی اور یہ معلوم نہ ہوتا تھا - کہ ریل چل رہی ہے یا کھڑی ہے - ایک غزل کے بعد میں نے آگے اجازت نہیں دی - قدرت کے باوجود ضبط نہ کرنا ریا کاری ہے اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس توجہ میں کسی نے