ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
کرے - مسئلہ تحقیق کردینی چاہئے اگر وہ بنظر تحقیق پوچھتا ہے تو حق بات کا خاصہ ہے کہ دل کو لگ جاتی ہے ہاں اگر اس کے تحقیق میں کوئی شبہ ناشی عن دلیل رہتا ہو تو اس کا حل کرنا مجیب کا کام ہے اور اگر سائل مجادل ہے تو اس کے سمجھانے کی کوشش کرنا محض بے سود ہے - صرف جواب الزامی سے کام لینا شاہئے بلا اس کے اس پیچھا چھڑانا نا ممکن ہے - اور یہ انتہا درجہ کی کوبی ہے کہ جواب الزام و تحقیق دونوں کو جامع ہو جیسا کہ حضرت والا نے صاحبزادہ صاحب سے ایسا جواب ارشاد فرمایا کہ بحثییت الزامی ہونے کے ان کے لئے مسکت ہو اور یہی جواب تحقیقی بھی ہے - حق پسند آدمی اس سے پوری تسلی پاسکتا ہے - وجادلھم بالتی ھی احسن - کی بھی تعمیل ہے - ترجمہ اور مجادلہ کرو ان سے اچھے طریقے کے ساتھ اور قل لھم فی انفسھم قولا بلیغا کی بھی ترجمہ ان کے دلوں کے اندر گھس جانے والی بات کہئے - قرآن شریف میں دونوں قسم کے جواب بکثرت موجود ہیں مثلا الا انھم من افکھم لیقولون والد اللہ وانھم لکذبون اصطفی البنات علی البنین وقال فی موضوع آخر انی یکون لی ولد ولم تکن لہ صاحبۃ الاول الزامی والثانی تحقیقی مجلس چہل و پنجم ( 45 ) یوں دعا نہ مانگے کہ یہ کام بہتر ہو تو ہو جاوے : - عبد اللہ خان ( ان کا قصہ حکمت سی و ہشتم میں گزرچکا ہے ) تھانہ دار تھانہ بھون کی تبدیلی ہوئی ان کے جاتے ہی ان کے مکان پر چوری ہوئی - عبد اللہ خان کے ماموں صاحب آئے - ( یہ ذی فہم و صحبت یافتہ اور مسن آدمی تھے ) حضرت والا نے بطور تعزیت افسوس آمیز کلمات فرمائے اور فرمایا خدا کرے وہ چوری نکل آوے تو انہوں نے کہا اگر وہ مال ہمارے واسطے بہتر ہو تو واپس مل جاوے ورنہ ہماری دعا یہ ہے کہ نہ ملے - فرمایا حضرت والا نے ہماری دعا تو یہی ہے کہ مل جاوے اور اگر واضع میں اس میں خیز نہیں ہے تو خدائے تعالیٰ آپ ہی قبول نہ فرماویں گے جیسے کہ ہم مریض کے لئے یہی دعا کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ شفادیں پھر اگر مناسب یہی ہوتا ہے کہ شفا نہ ہو تو حق تعالیٰ قبول نہیں فرماتے اور فرمایا حضرت والا نے کہ میں عبد اللہ خاں صاحب کے مکان پر ان کی والدہ کے پاس بطور تعزیت