ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ترساں رہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ معاصی کے سبب سے ان میں التباس ہوگیا ہو - حدوث علم کا شبہ اور اس کا جواب ( 75 ) بتاریخ مذکور - فرمایا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علیٰ عقبیہ اس آیت میں حدوث علم کا شکال ہے مفسرین نے مختلف جواب اور بعض جواب لا جواب دیئے ہیں - بعض معقولیوں نے جواب دیا اور اپنے نزدیک بڑا کمال اور لطیف جواب سمجھا ہوگا لیکن محض پوچ و لچر - تقریر اشکال یہ ہے کہ علم غایت ہے تحویل قبلہ کی اور تحویل قبلہ حادث ہے اور غایت وجود خارجی میں موخر ہوتی ہے ذی حیات سے پس جب مقدم حادث ہے تو موخر بدرجہ اولیٰ حادث ہوگا - وہذا مستلزم لحدوث علمہ تعالیٰ - ہو محال فی شانہ تعالیٰ - معقولی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ اس میں علم تفصیلی مراد ہے یہ نہ سمجھے کہ علم تفصیلی اصطلاحی لفظ ہے جس کا مفہوم کے مصداق خود معلومات ہیں یعنی خود معلومات کو علم تفصیلی کہتے ہیں - ان کے علم کو نہیں کہتے پس وہ نہ مصدر ہے نہ حاصل بالمصدر اس سے اشتقاق کیسے جائز ہے اور اگر بفرض محال اس سے نعلم کو مشتق کریں گے تو اس کے معنی تو یہ ہونگے کہ لنکون متصفین بزیدو عمر و بکر اور اس کا اہمال ظاہر ہے کہ اس میں اتصاف باری تعالیٰ کا جواہر واعراض حادثہ کے ساتھ لازم آوے گا تو اصل اشکال حدوث صفات کا اب بھی رہا اور دوسری مفاسد اس کے علاوہ - معقول انسان کو کبھی نا معقول بھی بنا دیتی ہے جس کی وسجہ سے وہ نا معقول باتیں کرنے لگتا ہے - اچھا جواب یہ ہے کہہ لنعلم ما کنا نعلمہ انہ سیقع انہ قد وقع اور مفسرین کا علم ظہور کہنا اس کی طرف راجع ہوسکتا ہے - حضرت حاجی امداد اللہ کے ایک کلام کی تشریح ( 76 ) بتاریخ مذکور - ایک صاحب نے حاجی صاحب کی جانب یہ مضمون منسوب کیا کہ جبرئیل علیہ السلام خود آئینہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آئینہ میں حضور نے اپنے کو دیکھا تو آپ خود اپنے سے مستفیض ہوئے اور جبرئیل علیہ السلام سے آپ کیا فیض لیتے چونکہ بدون آئینہ کے اپنی صورت نظر نہیں آتی اس لئے اس واسطہ جبرئیلیہ کی ضرورت ہوئی -