ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
بآواز بلند اللہ کہا - حضرت نے فرمایا کہ مجلس سے باہر کردو - بات یہ تھی کہ حضرت کو فراست باطنی سے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ شخص ضبط پر قادر تھا باوجود قدرت کے جب ضبط نہ کیا تو ریا کا داخل ہوا اس لئے معتوب ہوا جو شخص اس حقیقت سے واقف نہیں وہ تو یہ کہے گا کہ بڑے سخت تھے کہ اللہ کہنے پر نلکوا دیا - اللہ پہ تو کہا تھا کوئی گناہ تو نہ کیا تھا مگر ان کو کیا خبر ہے کہ بعض دفعہ ایسی حالت میں انسان قرآن پڑھتا ہے کہ قرآن اس پر لعنت کرتا ہے رب قارئ للقرآن والقرآن یلعنہ ( بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ انسان قرآن پڑھتا ہے اور قرآن اس پر لعنت کرتا ہے ) مولانا فرماتے ہیں - مصرع ہرچہ گیر و علتی شود سماع کا کیا ذکر بیقا عدہ اللہ کہنے پر بزرگوں نے مواخذہ فرمایا یہ سماع کی حقیقت اہل سماع کا ذوق اور مانعین سماع کا حال - اب وہ زمانہ ہی نہیں رہا - کسی کو بتایا جائے کسی سے بیان کیا جائے اور کس کو سمجھایا جاوے - بس خدا ہی ست دعا کرنا چاہیئے کہ وہ اپنے راستہ پر چلائے - اپنے رسول کی پیروی سنت کی توفیق دے اور اسی پر خاتمہ کرے - والحمد للہ رب العلمین ہمارے بزرگوں کا طریقہ فقر اختیاری کا تھا ( 5 ) فرمایا ہمارے بزرگوں کا طریقہ فقر اختیاری کا تھا - مال و دولت سے تنفر تھا - حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مدتوں فقر و فاقہ سے گزاری - مطبع مجتبائی دہلی کے مالک منشی ممتاز علی صاحب نے چاہا کہ مولانا کی ماہانہ کچھ خدمت کیا کریں - حضرت نے اس کو منظور نہ فرمایا - بکلہ ارشاد فرمایا کہ اگر مجھ سے کوئی کام لیا جائے اور اس کی بناء پر کچھ دیدیا جایا کرے تو مضائقہ نہیں - وہ بھی صرف تصیحح قرآن کی خدمت اگر مجھے دی جائے تو اتنا کام مجھے آتا ہے کردیا کروں گا - اس سے زیادہ کا میں اہل نہیں - چونکہ مالک مطبع کی غرض و مقصود خدمت کرنا تھا - انہوں نے اس کو منظور کرلیا اور کچھ عرصہ تک آپ اس خدمت کو انجام دیتے رہے - اور اسطرھ آپ کو دس روپیہ ماہوار ملا کئے - بھوپال کے نواب کی پیشکش جو ٹھکرادی گئی اسی زمانہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب رئیس بھوپال نے ایک مدرسہ کھولا -