ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ہے - میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اپنے بزرگوں ہی کے طریقہ پر چلا جاؤں ان کے طریقہ سے ہٹنا مجھے سوہان روح ہے - اور اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل وانعام ہے کہ جن بصیرت والوں نے میرے بزرگوں کو دیکھا ہے انہوں نے مجھے دیکھ کر شہادت دی ہے کہ میں اپنے بزرگوں کے طریقہ پر ہوں - الحمد للہ کہ یہ نعمت حق تعالیٰ نے مجھے عطافرمائی ہے - میں اس کو کسی طرح ضائع نہیں کرنا چاہتا - میرے بزرگوں کا یہ خاص طرز تھا کہ خوامخواہ کسی سے الجھنا نہیں چاہتے تھے - کوئی ضرورت اور مجبوری ہی آپڑے تو خیر - اسی طرز کے موافق میں نے یہ کہا تھا کہ اس خط کا جواب دینا مصلحت نہیں ہے - ان کو کس طرح بتاؤں کہ میرے بزرگوں کا کیا ارشاد ہے ؟ وہ کیا فرمارہے ہیں - ان کے فرمانے کا منشاء کیا ہے ؟ میں جو کچھ کہتا ہوں اپنے بزرگوں کے ایما ء کے مطابق - ان کے طریق پر ںظر کرتے ہوئے اور نہ جانے کیا کیا ارشاد فرماتے رہے جناب مولانا ظفر احمد صاحب پر خوف کا غلبہ تھا - میری حالت غیر تھی دہشت سے کانپ رہا تھا - یہاں تک کہ رونا آگیا - ارشاد فرمایا کہ یہ وقت رونے کا نہیں ہے خوش ہونے کا ہے - اس کے بعد پھر اسی جوش کی حالت میں تقریر فرماتے رہے - مگر یہاں کس کو ہوش تھا جو وہ سب الفاظ یاد رکھتا - کس کے حواس تھے جو پوری تقریر سمجھ سکتا - الفاظ نکل رہے تھے اور کانوں میں پڑ رہے تھے مگر پتہ نہیں چلتا تھا کیا تھے - دماغ سمجھنے سے قاصر تھا واقعہ تو یہ ہے کہ اگر کچھ دیر اور تقریر جاری رہتی یہی عالم رہتا تو نہ معلوم کیا حال ہو جاتا - نہ یہ حالت کبھی کبھی نہ یہ منظر کبھی سامنے آیا - یہ وہ ساعتیں تھیں جو کبھی بھول نہیں سکتیں - یہ وہ گھڑیاں تھیں جو کبھی فراموش نہیں ہوسکتیں - یہ اسرار الہٰی تھے ان کو ان کے جاننے والے ہی جان سکتے ہیں - میں نے تو صرف اس قدر سنا اور سمجھا ہے گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود بعد کے حالات نے حضرت کی رائے کی تصدیق کردی اور بس ( نوٹ ) پھر اس جلسہ مذکورہ کے بعد جس میں حضرت والا کو دعوت شرکت دی گئی تھی قریب ہی ایک سخت ناگوار واقعہ پیش آیا جس کو عام نظروں میں اس جلسہ کی