ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
فوائد و نتائج امراء کے ساتھ کیا برتاؤ چاہئے امراء کو سخت سست کہنا اور اس کو قطع عن الخلق سمجھنا امراء کے پاس اپنی حاجت لئ جانا خلاف شان علم ہے - یہ تو بہت ظاہر ہے لیکن اپنے آپ کوا تنا ان سے کھیچنا کہ باوجود اصرار اور قدر دانی اور علم کے حق شناسی کے کبھی ان کی فرمائش پوری نہ کرنا یہ بھی محمود نہیں - یہ دعویٰ تقدس اور تکبر ہے جس میں بہت سے علماء مبتلا ہیں - خصوصا جو لوگ درویش کہلاتے ہیں وہ تو اس غلطی میں بہت ہی مبتلا ہیں - امراء کو سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں اور اس کو قطع عن المخلق اور کیا کیا سمجھتے ہیں - حالانکہ واقع میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ اور زیادہ مخلوق کو راجع کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے - استغنا سے رجوعات بڑھتی ہے تو اب تو یہ درو دبک کرنا زبان کا گناہ بھی ہوا کیونکہ کسی کی ایذا کا باعث ہے اور درپردہ فعل مطابق قول نہیں - صورتا دور ربک ہے اور حقیقتا ان سے قرب حاصل کرنا جس پر وعید لم تقولون مالا تفعلون راجع ہے - اور اگر دل میں یہ نہیں ہے فی الواقع امراء سے علیحدگی پسند بھی ہیں تو اس وقت میں بھی زبان سے سخت سست کہنا توہین مسلم اور آبرو دیزی ہے - جس کی نسبت حدیث میں ہے کہ مسلمان مسلمان پر حرام ہے مال بھی اس کا اور آبرو بھی اس کی اور اگر وہ امیر مسلم بھی ہے تب بھی لیں کلام مامور بہ ہے - حضرت موسیٰ علیہ ولسلام کو حکم ہوا تھا فقولا لہ قولہ لعلہ یتذکر او یخشی بولو تم فرعون سے نرم بولنا تاکہ شاید وہ نصیحت پکڑے اور ڈرے - محقیقن کا قول ہے نعم الامیر علی باب الفقیر و بئس الفقیر علی باب الامیر ( امیر تو فقیر کے دروازے پر اچھا ہے اور فقیر امیر کے دروازے پر برا ہے ) اسی کے متعلق حضرت حاجی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جب امیر تمہارے