ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
کے لئے وہی چیز پسند کر جو اپنے واسطے پسند کرتا ہے تب مسلمان ہوگا - اگر وہ شخص جواب ترکی بہ ترکی دے اور ان سے کہے کہ تم میرا کام کرو تو عجب نہیں کہ مار پیٹ کی نوبت آ جاوے - حضرت والا کے اس جملہ کا یہی مطلب ہے کہ حقیقت جب معلوم ہو کہ کوئی حاکم ان کو پکڑ پکڑ کر کسی ناگوار کام پر بھیج دے اور اگر وہ ناراض بھی نہ ہو تب بھی خلاف غیرت ہے - ممکن ہے کہ وہ نکار کردے تو کس قدر خفت ہوگی اور خفت اٹھانا بھی محذور شرعی ہے - سوال کی مذمت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا ہے - اعطاہ او منعہ یعنی چاہئے دے یا نہ دے - ایک حدیث میں ہے کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو اس پر پکا ہو جاوے کہ کسی سے سوال نہ کرے تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں - چند صحابہ نے اس کا عہد کیا - راوی کہتے ہیں کہ ہم نے ان لوگوں کو دیکھا کہ اگر گھوڑے پر سوار ہوں اور کوڑا گر گیا تو خود اتر کر اٹھاتے کسی سے اس کے اٹھانے کا سوال نہ کرتے - کسی سے کام لینے کے مستحسن مواقع : اور اگر قرائن سے معلوم ہو کہ وہ شخص خوشی سے کام کرے گا اور انکار ہر گز نہ کرے گا تو اگر جوش محبت سے وہ کام کرنا چاہتا ہو تب تو کام لینے میں کچھ بھی حرج نہیں - شاگردوں اور مریدین سے کام لینا اسی میں داخل ہے - کمافی قصۃ سیدنا موسیٰ علی نبینا و علیہ والسلام قال لفتناہ آتنا غدائنا یعنی کہا موسیٰ علیہ اسلام نے اپنے ہمراہی سے کہ کھانا لاو معلوم ہوا کھانا لے چلنا اور کھلانا ان کے سپرد تھا بلکہ بعض وقت کام لینا اسکی دلجوئی کا باعث ہوتا ہے یا اس کے کسی باطنی امراض کا علاج ہوتا ہے تو اس وقت میں اولی ہے کہ کام لیا جاوے اور اگر جوش محبت نہیں صرف اپنی وضعداری سے کام کرنا چاہتا ہے تو اس وقت میں کام کرانا احسان لینا ہے جس سے آنکھ نیچی ہوتی ہے - احسان کی مکافات : حضرت والا سے بارہا تھانہ بھون کے اسٹیشن والوں نے عرض کیا کہ یہاں سے قصبہ دور ہے آپ کو ہم قصبہ کے متصل اتار دیا کریں مگر علاوہ خلاف قانون ہو کے اسی بار احسان