ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
پوچھ لے چونکہ بلا اس کے نماز نہیں ہوسکتی نہ نماز کا قضا کرنا درست ہے - ہاں احتیاط رکھے کہ بدن قدر جواز سے زیادہ نہ کھلے اور گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی میں یہ عزر ہوتا ہے کہ گاڑی راستہ میں رکنی نہیں اور جنگل میں اترنے میں بے پردگی ہوتی ہے - یہ دونوں عزر شرعا قابل سماعت نہیں - اگر نماز کا خیال ہے تو گاڑی سے کہہ کہ گاڑی رکوادے - اگر اس میں کچھ خرچ کی ضرورت ہو تو اگر موجود ہو تو خرچ کرے اور اگر کوئی صورت نہ ہوتو تیمم کر کے گاڑی کے اندر بیٹھ کر فرض ادا کرے اور اس کے مسائل کو علماء اچھی طرح معلوم کر لے یا جہاں گھوڑے بدلے جاویں وہاں اتر کر پڑھ لے اور بے پردگی کے عذر کو جواب یہ ہے کہ ایسے موقعہ پر شریعت کا ھکم ہے کہ منہ اور پہونچوں تک ہاتھ اور ٹخنوں سے نیچے پیر کھولنا جائز ہے زیادہ پردہ مشیخت ہے - اپنی بی بی کو جنگل میں نماز پڑھوانا : ایک عالم کا قصہ ہے کہ گاڑی میں اپنی بی بی کے ساتھ سفر کر رہے تھے گاڑی کے اوپر اور آدمی بھی تھے - نماز کا وقت آیا تو انہوں نے گاڑی رکوائی - لوگوں نے کہا یہاں اترنا پردہ کے خلاف ہے - انہوں نے برقعہ اڑھا کر بی بی کو اتارا اور نماز پڑھوائی اور پکا کر کہا کہ بھائی جس نے نہ دیکھا ہو وہ دیکھ لو کہ یہ میری بی بی ہے ہمیشہ مکان میں رہتی ہے اب خدائے تعالیٰ کے حکم سے میدان میں کھڑے نماز پڑھ رہی ہے تم اس کو بے حیائی سمجھو مگر خدائے تعالیٰ کا فرض قضا کرنا اس سے زیادہ بے حیائی ہے - موٹی سی بات ہے اپنے حقوق کے لئے اچھی اچھی خاندانی مستورات کچہری جاتی اور جواب و سوال کرتی ہیں پھر بضرورت دینی ایسا کریں تو کیا مضائقہ ہے - ( 6 ) قولہ : میرے دوست بھی ایسا ہی کریں - یہ حضرت والا کا ارشاد باعث اور مؤید ہے - احقر کے ان اوراق کے جمع کا اور دیگر ان اصحاب سے بھی عرض ہے جن کو حاضری کا موقع ملتا ہے کہ فیوض اشرفیہ کو اپنے ہی تک محدود رکھیں خیر الناس من ینفع الناس ایک دن احقر نے عرض بھی کیا کہ فدوی نے جو واقعات مفید دیکھے شرح و بسط کے ساتھ