ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
و بدائع کا نام ہے حالانکہ یہ فلسہ کی ایک شاخ ہے جو تمام شاخوں سے ادنیٰ اور خسیس ہے جس کو طبعیات کہتے ہیں ان کی رسائی مادیات علو یہ تک بھی نہیں - الہٰیات تو بہت بالاتر ہیں - فلسفہ کے فوائد : البتہ پرانے فلسفہ میں اس سے کچھ تعرض ہے گو اس میں عقل کو کافی سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے غلطیاں کی ہیں تاہم ان کی نظر ان سے بہت دقیق ہے اور اس فلسفہ کے پڑھنے سے وقت فکر اور عمق نظر پیدا ہو جاتا ہے ان کو بات کا سمجھنا سمجھانا سہل ہوتا ہے - گفتگو از مولوی حشمت اللہ صاحب جنٹ : ایک مرتبہ ریل میں مجھ سے فلسفہ کے ایک مسئلہ یعنی حدوث و قدوم عالم میں مسٹر حشمت اللہ خاں صاحب جنٹ نے کچھ گفتگو کی - انہوں نے فلسفہ پڑھا ہے میں نے تقریر کی تو میری تقریر سے بحد مسرور ہوئے اور کہا کہ ایسی تقریر و تحقیق میں نے کبھی نہیں سنی - ان کی بحث سے میرا دل بھی اکتا تھا اور جتنا وہ پوچھتے تھے اتنی ہی طبیعت کھلتی تھی - وجہ یہی ہے کہ وہ فلسفلہ جانتے تھے اور قاعدہ کی گفتگو کرتے تھے اور رہے آج کل کے عقلمند سو بس اپنے ہی دل عقلمند ہیں ورنہ ان کو حقیقت شناسی اور فلسفہ سے مس بھی نہیں واقعی جب کسی ذی علم سے گفتگو ہوتی ہے تو مجیب کو کبھی گراں نہیں گزرتی بلکہ لطف آتا ہے اور اس گفتگو پر نتیجہ بھی متفرع ہوتا ہے یعنی کوئی تحقیق حاصل ہوجاتی ہے - اور جاہلانہ گفتگو تو جنگ و جدال اور تضیع وقت ہے - ایک مولوی اور منطقی کی گفتگو : ایک دفعہ ایک مولوی اور ایک نئے تعلیم یافتہ صاحب سے گفتگو ہوئی - یہ تھے تو نئے خیال کے لیکن فلسفہ دان اور علماء کی صحبت پائے ہوئے تھے - گفتگو اس آیت میں تھی فاما منا بعدو امافداء سید احمد خاں نے اس سے استدلال کیا ہے منع استرقاق یعنی بردہ فروشی کی ممانعت پر ( سر دیر بردہ فروشی کے اس قدر خلاف ہیں کہ لکھا ہے کہ بردہ فروشی شرک سے بھی زیادہ بری ہے - ( یہ یورپ کی تقلید اور خوشامد ہے ) کہ قرآن میں تو صرف من اور فداء