ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
نے عرض کیا کہ الشعر کلام موزون حسنہ حسن و قبیحہ قبیح فرمایا اور صورت حسن کی نسبت کیا کہتے ہو عرض کیا یزید فی الخلق مایشائ بعض علماء نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے کہ اس زیارت سے مراد صوت حسن ہے فرمایا اگر یہ دونوں جمع ہوجاویں اس وقت تم کیا کہوگے - عرض کیا نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشآء فرمایا بس ہمارا سماع یہی تھا اس کے بعد انہو نے دیکھا کہ آسمان سے ایک تخت نازل ہوا جس پر ایک بزرگ رونق افروز ہیں - حضرت قطب صاحب ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے - تھوڑی دیر کے بعد وہ تخت پھر آسمان پر اٹھ گیا تو شاہ صاحب نے حضرت قطب صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ تھے - فرمایا یہ خواجہ بہاء الدین نقشبند تھے - شاہ صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو سماع کے منکر تھے آپ نے ان کے سامنے اپنی تحقیق کیوں نہ بیان فرمائی - فرمایا ادب کے خلاف تھا - یہ حضرات عالم بزرخ میں بھی ایک دوسرے کا آدب کرتے ہیں - سماع غذا نہیں علاج ہے : نواب جمشید علی خاں صاحب نے عرض کیا کہ بعض لوگ مزامیر کی اجازت کے واسطے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑکیوں نے دف بجا کر گایا ہے - فرمایا وہ کوئی باقاعدہ گانا نہ تھا - نہ وہ لڑکیاں گانے والی تھیں - یو نہی بے قاعدہ گانا بجانا تھا - پھر فرمایا کہ گو حدیث سے شادی وغیرہ کے موقع پر دف کی اجازت ہے - اور سماع صوفیہ کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے مگر بعض دفعہ مصلحت انتظام کے لئے امر مباح سے بھی منع کیا جاتا ہے - جیسا پہلے کہہ چکا ہوں اور راز اس میں وہی ہے کہ عوام کو اس میں گنجائش دینے سے کسی بڑے مفسدہ کا اندیشہ ہو جاتا ہے کیونکہ عوام تو عوام بعض اہل سلوک بھی اس غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم شہوات سے بری ہیں اس لئے وہ اپنے سماع کا اہل سمجھنے لگتے ہیں - اصل یہ ہے سماع غذا نہیں دوا ہے - غذا تو ذکر اللہ اور تلاوت و صلوۃ وغیرہ اعمال شریعہ ہیں لیکن بعض دفعہ کوئی حال انسان پر ایسا غالب ہوتا ہے کہ اس کو سماع سے سکون ہوتا ہے - بدون اس کے سکون نہیں ہوتا -